الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
17. بَابُ إِثْمِ مَنْ عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ:
17. باب: معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ؟
(17) Chapter. The sin of a person who makes a covenant and then proves treacherous.
حدیث نمبر: Q3178
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله: {الذين عاهدت منهم ثم ينقضون عهدهم في كل مرة وهم لا يتقون}.وَقَوْلِهِ: {الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ}.
‏‏‏‏ اور سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد «الذين عاهدت منهم ثم ينقضون عهدهم في كل مرة وهم لا يتقون‏» وہ لوگ (یہود) آپ جن سے معاہدہ کرتے ہیں، اور پھر ہر مرتبہ وہ دغا بازی کرتے ہیں، اور وہ باز نہیں آتے۔

حدیث نمبر: 3178
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اربع خلال من كن فيه كن منافقا خالصا من إذا حدث كذب، وإذا وعد اخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْبَعُ خِلَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَنَّ مُنَافِقًا خَالِصًا مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چار عادتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ چاروں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ پکا منافق ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے، تو وعدہ خلافی کرے، اور جب معاہدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔ اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے اور اگر کسی شخص کے اندر ان چاروں عادتوں میں سے ایک ہی عادت ہے، تو اس کے اندر نفاق کی ایک عادت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: Allah's Apostle said, "Whoever has (the following) four characteristics will be a pure hypocrite: "If he speaks, he tells a lie; if he gives a promise, he breaks it, if he makes a covenant he proves treacherous; and if he quarrels, he behaves in a very imprudent evil insulting manner (unjust). And whoever has one of these characteristics, has one characteristic of a hypocrite, unless he gives it us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 403


   صحيح البخاري2459عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من أربعة كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري34عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري3178عبد الله بن عمروأربع خلال من كن فيه كن منافقا خالصا إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر من كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها
   صحيح مسلم210عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خلة منهن كانت فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر
   جامع الترمذي2632عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا وإن كانت خصلة منهن فيه كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها من إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر إذا عاهد غدر
   سنن أبي داود4688عبد الله بن عمروأربع من كن فيه فهو منافق خالص ومن كانت فيه خلة منهن كان فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   سنن النسائى الصغرى5023عبد الله بن عمروأربعة من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من الأربع كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   مشكوة المصابيح56عبد الله بن عمرواربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 34  
´منافق کی نشانیوں کے بیان میں`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 34]

تشریح:
پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں «منافق خالص» کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہر طرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگر کم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی و بیشی ثابت کرنا ہے جو ان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔

ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھر عمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگر نفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے تو وہ نفاق تو یقیناً کفر و شرک ہی کے برابر ہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ» [النساء: 145] یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔ یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزور ہے اور اس میں نفاق کا گھن لگا ہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بنا ہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔

نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بنا ہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔

امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدود اسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ» [الاحزاب: 72] یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر انہوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ مگر انسان نے اس کے لیے اقرار کر لیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہر قسم کی امانت مراد ہیں، وہ مالی ہوں یا جانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3178  
3178. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چارخصلتیں ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہوتا ہے: وہ جب بھی بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، جب عہدوپیمان کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو فسق وفجور پر اتر آئے۔ اور جس میں ان خصلتوں میں سے کوئی خصلت پائی جائےگی، جب تک اسے چھوڑے گا نہیں یہ نفاق کی خصلت اس میں باقی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3178]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ وعدہ خلافی کرنا مسلمان کی شان نہیں ہے۔
وہ وعدہ خواہ کافروں ہی سے کیو ں نہ کیاگیا ہو، پھر جو وعدہ اغیار سے سیاسی سطح پر کیا جائے اس کی اور بھی اونچی حیثیت ہے، اسے پورا کرنا مسلمان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔
اسی لیے آنحضرت ﷺ نے صلح حدیبیہ کو پورے طور پر نبھایا، حالانکہ اس میں قریش کی کئی شرطیں سراسر نامعقول تھیں، مگر الکریم إذا وعد وفی مشہور مقولہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3178   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 56  
´منافق کی علامات`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذا خَاصم فجر» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص میں یہ چاروں علامتیں موجود ہوں گی وہ خالص اور پکا منافق ہو گا اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک بات ہے تو نفاق کی ایک علامت ہو گی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے (وہ چار باتیں یہ ہیں) جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد و اقرار کرے تو اس کے خلاف کر کے اس کو توڑ دے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ بکے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 56]

تخریج:
[صحيح بخاري 34]،
[صحيح مسلم 210]

فقہ الحدیث:
➊ گالیاں دینا کبیرہ گناہ ہے۔
➋ سچا مسلمان کبھی غدار نہیں ہوتا۔
➌ اس حدیث میں منافق کی اہم اور مشہور چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں، جب کہ کتاب و سنت میں اس کی مزید کئی عادات و اطوار کا ذکر ملتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2632  
´منافق کی پہچان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ (مکمل) منافق ہو گا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2632]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔
اس کے عمل میں نفاق ہے،
لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔
اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔
ایسا تو صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوسکتا تھا۔
کیوں کہ آپ ﷺ صاحب وحی تھے،
وحی الٰہی کی روشنی میں آپﷺ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کاحق و اختیار نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4688  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4688]
فوائد ومسائل:
نفاق بنیادی طور پر قول وعمل کے شدید تضاد کا نام ہے، اگر کسی نے اقرارباللسان کیا، لیکن اس کے اعمال اس کے برعکس ہیں تو اس کا اقرار غیر حقیقی یا انتہائی کمزورہے۔
آپؐ نے جن چیزوں کو علامات نفاق قراردیا ہے وہ اعمال شنیعہ ہی ہیں۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ کسی پر مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حکم اس کے دعوی اور اعمال کے مطابق لگایا جاسکتا ہے، لیکن بعض بنیادی عمل ایسے ہیں کہ صرف زبانی اقرار والے عموماان کا اہتمام نہیں کرسکتے۔
چاہے وہ بڑے بڑے اعمال جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے بھی ہوں، جہاں نیکی ایمان میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتی ہے تو وہاں ہر گناہ اور برائی ایمان میں کمی لاتی ہے اور کسی مسلمان میں نفاق کی علامتوں کا پایا جانا ہی قبیح اور بڑا عیب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4688   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3178  
3178. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چارخصلتیں ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہوتا ہے: وہ جب بھی بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، جب عہدوپیمان کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو فسق وفجور پر اتر آئے۔ اور جس میں ان خصلتوں میں سے کوئی خصلت پائی جائےگی، جب تک اسے چھوڑے گا نہیں یہ نفاق کی خصلت اس میں باقی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3178]
حدیث حاشیہ:

وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرنا ایک مسلمان کی شان نہیں بلکہ منافقوں کا کام ہے، خواہ وہ عہد وپیمان کفار ہی سے کیوں نہ کیاگیا ہو۔
جو وعدہ اغیار سے سیاسی سطح پر کیا گیا ہو اس کی حیثیت اور بڑھ جاتی ہے۔
اسے پورا کرنامسلمان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش کے ساتھ کیے گئے عہد وپیمان کو پوری طرح نبھایا، خواہ اپنے بندوں کو ان کے حوالے کرنا پڑا، حالانکہ صلح حدیبیہ میں کفار قریش کی کئی ایک شرائط سراسر نامعقول تھیں اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے انھیں پورا کیا۔

حدیث میں مذکور برے اعمال کسی مومن کو زیب نہیں دیتے، حقیقتاً ان کو سرانجام دینے والا منافق ہی ہوسکتاہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3178   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.