الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
حدیث نمبر: 3183
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن اسماء ابنة ابي بكر رضي الله عنهما، قالت: قدمت علي امي وهي مشركة في عهد قريش إذ عاهدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ومدتهم مع ابيها فاستفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إن امي قدمت علي وهي راغبة افاصلها، قال:" نعم صليها".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا، قَالَ:" نَعَمْ صِلِيهَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قریش سے جس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیبیہ کی) صلح کی تھی، اسی مدت میں میری والدہ (قتیلہ) اپنے باپ (حارث بن مدرک) کو ساتھ لے کر میرے پاس آئیں، وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ (عروہ نے بیان کیا کہ) اسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری والدہ آئی ہوئی ہیں اور مجھ سے رغبت کے ساتھ ملنا چاہتی ہیں، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان کے ساتھ صلہ رحمی کر۔

Narrated Asma 'bint Abi Bakr: During the period of the peace treaty of Quraish with Allah's Apostle, my mother, accompanied by her father, came to visit me, and she was a pagan. I consulted Allah's Apostle, "O Allah's Apostle! My mother has come to me and she desires to receive a reward from me, shall I keep good relation with her?" He said, "Yes, keep good relation with her."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 407


   صحيح البخاري2620أسماء بنت أبي بكروهي راغبة أفأصل أمي قال نعم صلي أمك
   صحيح البخاري5978أسماء بنت أبي بكرأتتني أمي راغبة في عهد النبي فسألت النبي آصلها قال نعم
   صحيح البخاري3183أسماء بنت أبي بكرأمي قدمت علي وهي راغبة أفأصلها قال نعم صليها
   صحيح مسلم2324أسماء بنت أبي بكرأمي قدمت علي وهي راغبة أو راهبة أفأصلها قال نعم
   صحيح مسلم2325أسماء بنت أبي بكرقدمت علي أمي وهي راغبة أفأصل أمي قال نعم صلي أمك
   سنن أبي داود1668أسماء بنت أبي بكرصلي أمك
   مسندالحميدي320أسماء بنت أبي بكرنعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1668  
´ذمی کو صدقہ دینے کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1668]
1668. اردو حاشیہ: رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک سے پیش آنا اسلامی تعلیم کا لازمی حصہ اور مسلمانوں کا شعار ہے مگر للہ فی اللہ گہری اور رازدارانہ محبت مسلمانوں ہی سے خاص ہے۔ کافر لوگوں یا کافر عزیزوں کو فرض زکواۃ یا واجب صدقات نہیں دیئے جاسکتے۔الا یہ کہ مئولفۃ القلوب کے ضمن میں آتے ہوں۔ نفل صدقات دینے میں کوئی حرج نہیں۔خاص طور پر والدین کا تو حق ہے۔ کہ اولاد ان پر خرچ کرے۔ کافر ہونا ان کا اپنا معاملہ ہے۔ جو اللہ کے ساتھ ہے سورۃ لقمان میں ہے <قرآن>۔(وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا)(لقمان۔15) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں۔ تو ان کا کہا مت مان اور دنیا کے امور میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کر
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1668   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3183  
3183. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ قریش نے جس وقت رسول اللہ ﷺ سے جنگ بندی کی صلح کررکھی تھی، اس مدت میں میری والدہ ا پنے باپ کے ہمراہ میرے ہاں مدینہ طیبہ آئی جبکہ وہ اس وقت مشرکین سے تھی۔ حضرت اسماء ؓ نے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے (کچھ مال لینے کی) رغبت رکھتی ہے تو کیا میں ایسے حالات میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3183]
حدیث حاشیہ:
باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ ان کی والدہ بھی قریش کے کافروں میں شامل تھیں اور چونکہ ان سے اور آنحضرت ﷺ سے صلح کی تھی اس لیے رسول کریم ﷺ نے حضرت اسماءؓ کو اجازت دی کہ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3183   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3183  
3183. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ قریش نے جس وقت رسول اللہ ﷺ سے جنگ بندی کی صلح کررکھی تھی، اس مدت میں میری والدہ ا پنے باپ کے ہمراہ میرے ہاں مدینہ طیبہ آئی جبکہ وہ اس وقت مشرکین سے تھی۔ حضرت اسماء ؓ نے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے (کچھ مال لینے کی) رغبت رکھتی ہے تو کیا میں ایسے حالات میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3183]
حدیث حاشیہ:

سیدہ اسماء ؓ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں پدری بہنیں ہیں۔
ان کے والد گرامی حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں جبکہ ان کی مائیں الگ الگ ہیں۔
حضرت اسماء کی والدہ کفارقریش میں شامل تھیں اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی ان دنوں صلح تھی، اس لیے آپ نے حضرت اسماء ؓ کو اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی۔

عنوان سابق سے اس حدیث کا اس طرح تعلق ہے کہ کفار سے ایفائے عہد کا تقاضا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے بہتر سلوک کیا جائے اگروہ وہ صلہ رحمی کرنے والے کے دین کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔

ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عہد شکنی مذموم ہے اور اس کے مقابلے میں ایفائے عہد قابل تعریف اور پسندیدہ خصلت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3183   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.