الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
80. باب النُّزُولِ بِمَكَّةَ لِلْحَاجِّ وَتَوْرِيثِ دُورِهَا:
80. باب: حاجیوں کا مکہ میں اترنا اور مکہ کے گھروں کی وارثت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه محمد بن حاتم ، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا محمد بن ابي حفصة ، وزمعة بن صالح ، قالا: حدثنا ابن شهاب ، عن علي بن حسين ، عن عمرو بن عثمان ، عن اسامة بن زيد ، انه قال: يا رسول الله، اين تنزل غدا إن شاء الله؟ وذلك زمن الفتح، قال: " وهل ترك لنا عقيل من منزل ".وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِح ، قَالَا: حدثنا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟ وَذَلِكَ زَمَنَ الْفَتْح، قَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ مَنْزِلٍ ".
محمد بن ابی حفصہ اور زمعہ بن صالح دونوں نے کہا ابن شہاب نے ہمیں حدیث بیان کی انھوں نے علی بن حسین سے، انھوں نے عمرو بن عثمان سے انھوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کل ان شاء اللہ آپ کہاں ٹھہریں گے؟ یہ فتح مکہ کا زمانہ تھا آپ نے فرمایا: "کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہے!"
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، اور انہوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان شاءاللہ آپ کل کہاں نزول فرمائیں گے؟ اور یہ فتح مکہ کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1351

   صحيح البخاري3058أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة المحصب حيث قاسمت قريش على الكفر وذلك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يبايعوهم ولا يؤووهم
   صحيح البخاري1588أسامة بن زيدهل ترك عقيل من رباع أو دور
   صحيح مسلم3294أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل من رباع أو دور
   صحيح مسلم3296أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل من منزل
   صحيح مسلم3295أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا
   سنن أبي داود2910أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون بخيف بني كنانة حيث تقاسمت قريش على الكفر يعني المحصب وذاك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يناكحوهم ولا يبايعوهم ولا يئووهم
   سنن ابن ماجه2942أسامة بن زيدهل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة يعني المحصب حيث قاسمت قريش على الكفر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2942  
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے؟ ۱؎ پھر فرمایا: ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2942]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس واقعہ میں قبائل کے جس معاہدے کا ذکر ہے اسی کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین سال تک شعب بنی ہاشم میں رہنا پڑا تھا جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں۔

(2)
مزید فوائد کے لیے ملاحظہ کیجیے (حدیث: 2730)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2942   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2910  
´کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‏‏‏‏ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2910]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ابو طالب کی وفات کے موقع پر عقیل اسلام نہ لائے تھے، اسی وجہ سے وہی اس کے وارث ہوئے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔
اس لئے وہ اختلاف دین کی وجہ سے اپنے باپ کے وارث نہ بنے۔
اور عقیل جوں ہی عبد المطلب کی جایئداد کے مالک بنے۔
انہوں نے اس کو فروخت کر دیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2910   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3296  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مکہ مکرمہ کے مکانات اور زمینوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان میں وراثت چلے گی،
اوران کی خریدوفروخت اور ان کو کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں،
اس اختلاف کی دو وجوہ ہیں۔

مکہ صلح سے فتح ہوا ہے یا جنگ اور قوت کے بل بوتے پر،
اگر قوت وطاقت کے بل بوتے پر فتح ہوا ہے تو مکہ کے گھر مسلمانوں کے تھے،
یا احسان کرتے ہوئے مکہ والوں کو دیے گئے۔

اَلْمَسْجِدُ الْحَرَام:
سے مراد،
بیت اللہ ہے یا پوراحرم کا علاقہ،
نیز:
﴿سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ﴾ اس میں مقیم اور باہر سے آنے والے برابر ہیں،
سے مراد امن واحترام میں برابر ہر چیز میں برابر ہیں۔
اس وجہ سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح مکہ کے وقت بھی سوال کیا،
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ٹھہریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا عقیل نے بنوعبدالمطلب کے تمام مہاجر لوگوں کے مکانات فروخت کردیے ہیں،
کیونکہ ابوطالب کی وفات کے وقت عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔
اس لیے وہ دونوں ہی وارث بنے تھے اور عقیل نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور عبدالمطلب کا وارث ابوطالب بنا تھا،
اور جاہلیت کے اصول کے مطابق بڑا بیٹا ہونے کے سبب عبدالمطلب کی تمام جائیداد اس کے پاس تھی،
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کے گھر میں رہتے تھے۔
حج کے موقع پر حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیال کیا شاید فتح مکہ کے بعد،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کو واپس لے لیا ہو گا۔
بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اوران کے ہم نوا حضرات کے نزدیک مکہ صلح سے فتح ہوا تھا۔
اس لیے اس کے مکانات مکہ کے باشندوں کی ملک میں رہے۔
اور ان کا حکم باقی شہروں کی طرح ہے ان میں ان کی وراثت جاری ہو گی اور ان کے لیے ان کا بیچنا،
رہن رکھنا،
کرایہ پردینا،
ہبہ کرنا ان کے بارے میں وصیت کرنا اور باقی تمام تصرفات صحیح ہوں گے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک مکہ بزور بازوفتح ہوا ہے،
اس لیے یہ تمام تصرفات ناجائز ہوں گے۔
(صحیح مسلم ج1ص 436)
۔
لیکن درمختارمیں ہے:
(وَجَازَ بَيْعَ بِنَاءِ بُيُوْتِ مَكَّةَ وَأَرْضَهَا بِلاَ كَرَاهَةٍ وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِي وَبِهِ يُفْتىٰ) (فتح الملھم 3/387)
مکہ کی عمارات اور ان کی جگہ،
بیچنا بلاکراہت جائز ہے۔
یہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے اور اس پر ہمارا فتوی ہے،
صاحب لامع الداری نے صاحبین کا قول یہی قرار دیا ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ایک روایت یہی ہے:
(لِاَنَّهَا عِنْدَنَا مَمْلُوْكَة ٌلِاَهْلِهَا)
کیونکہ مکہ کے باشندوں کی ملکیت ہیں۔
(ج5،
ص 173)

۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مکہ کی عمارات کے سلسلہ میں ہر قسم کا تصرف جائز ہے خواہ خرید وفروخت ہو یا ہبہ یا وراثت یا کرایہ پر دینا،
لیکن اگر عمارت گر جائے تو محض خالی زمین کے سلسلہ میں کسی قسم کا تصرف درست نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3296   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.