الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
19. باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, in Yasuf (Joseph) and his brethren there were Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelation, etc.) for those who ask." (V.12:7)
حدیث نمبر: 3389
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة، انه سال عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم: ارايت قوله حتى إذا استياس الرسل وظنوا انهم قد كذبوا او كذبوا، قالت: بل كذبهم قومهم، فقلت: والله لقد استيقنوا ان قومهم كذبوهم وما هو بالظن، فقالت: يا عرية لقد استيقنوا بذلك، قلت: فلعلها او كذبوا، قالت: معاذ الله لم تكن الرسل تظن ذلك بربها واما هذه الآية، قالت: هم اتباع الرسل الذين آمنوا بربهم وصدقوهم وطال عليهم البلاء واستاخر عنهم النصر حتى إذا استياست ممن كذبهم من قومهم وظنوا ان اتباعهم كذبوهم جاءهم نصر الله، قال ابو عبد الله استياسوا سورة يوسف آية 80 افتعلوا من يئست منه سورة يوسف آية 80من يوسف ولا تياسوا من روح الله سورة يوسف آية 87 معناه الرجاء.(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا سورة يوسف آية 80 افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ سورة يوسف آية 80مِنْ يُوسُفَ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ سورة يوسف آية 87 مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا‏» (تشدید کے ساتھ «كُذِّبُوا») ہے یا «كُذِبُوا» (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ «ظن‏.‏» گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا۔ میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے «كذبوا‏» ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ «استيأسوا‏»، «افتعلوا» کے وزن پر ہے جو «يئست‏.‏ ‏منه‏» سے نکلا ہے۔ «اى من يوسف‏.‏» (سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے یعنی زلیخا یوسف علیہ السلام سے ناامید ہو گئی۔) «لا تيأسوا من روح الله‏» » ‏‏‏‏ (سورۃ یوسف: 87) یعنی اللہ سے امید رکھو ناامید نہ ہو۔

Narrated `Urwa: I asked `Aisha the wife of the Prophet about the meaning of the following Verse: -- "(Respite will be granted) 'Until when the apostles give up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people)..............."(12.110) `Aisha replied, "Really, their nations did not believe them." I said, "By Allah! They were definite that their nations treated them as liars and it was not a matter of suspecting." `Aisha said, "O 'Uraiya (i.e. `Urwa)! No doubt, they were quite sure about it." I said, "May the Verse be read in such a way as to mean that the apostles thought that Allah did not help them?" Aisha said, "Allah forbid! (Impossible) The Apostles did not suspect their Lord of such a thing. But this Verse is concerned with the Apostles' followers who had faith in their Lord and believed in their apostles and their period of trials was long and Allah's Help was delayed till the apostles gave up hope for the conversion of the disbelievers amongst their nation and suspected that even their followers were shaken in their belief, Allah's Help then came to them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 603



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مفتي كفايت الله حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري1681  
´صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیر سے استدلال کرتے تھے`
«. . . أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا أَوْ كُذِبُوا . . .»
. . . مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا‏» (تشدید کے ساتھ «كُذِّبُوا») ہے یا «كُذِبُوا» (بغیر تشدید کے) . . . [صحيح البخاري /كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3389]

فوا ئد و مسائل:
اہل بدعت کی طرف سے بارباریہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ قران میں پہلے زبرزیرنہیں تھا بعد میں داخل کیا گیاہے، کیونکہ یہ اچھی چیز ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش ہے۔
لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قران میں پہلے زیرزبر نہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبر زیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعد میں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجود ہے، لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:

پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہو کر پہنچا ہے، سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی، اللہ کا ارشاد ہے:
«تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ» [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پر حق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔

اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
« {وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} » [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔ اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہو جائیں،صاف عربی زبان میں ہے۔

اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کر اور تلاوت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا ہے، صحیح بخاری میں ہے:
«وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ» [صحيح البخاري 1/ 8 رقم 6]
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کو قران پڑھاتے تھے۔

اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کو بتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیر زبر زیر کے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے؟؟؟ ہرگز نہیں!
مثال کے طور پر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پڑھے، پھر اس سے سوال کریں کہ:
تم نے «الحمد» کے «ح» پر کیا پڑھا؟
وہ جواب سے گا زبر پڑھا، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی «الحمد» کو پڑھا تھا تو کیا پڑھا تھا؟
یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبر ہی پڑھا تھا، اور اسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اور اس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔


دوسری دلیل:
زیر زبر لکھنے سے پہلے قران کا جو تلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پر پوری امت کا اجماع ہے کسی کا اختلاف نہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیر زبر پہلے ہی سے تھا، البتہ لکھا ہوا نہیں تھا بعد میں لکھا گیا ہے۔


تیسری دلیل:
زبر زیر لکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جو معانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں، اگر زبر زیر نیا ہوتا تو معانی بدل جاتے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبر زیر پہلے ہی سے موجود تھا البتہ اسے لکھا بعد میں گیا ہے۔


چوتھی دلیل:
زبر زیر لکھنے سے پہلے ہر حرف پر دس نیکی کا ثواب تھا اور زبر زیر لکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبر زیر نیا نہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعد میں ہوئی ہے۔


پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا، اگر پوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجز ہے، تو خود مسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آ گئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لے کر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہوا کہ زبر زیر کو بعد میں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجود تھا۔


چھٹی دلیل:
صحابہ کرام و ازواج مطہرات باقائدہ زبر زیر سے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
«حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "» [صحيح البخاري 4/ 150 رقم3389]
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ ان کی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا، بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی۔

اس حدیث میں غور فرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پر بحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اور زبر زیر قران میں پہلے ہی سے ہے۔


ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کر سکتے اور بالفرض وہ اگر ایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
« { تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} » [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔ اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا، تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

غور کریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کر سکیں، اور بالفرض ایسا کرنے پر انہیں سخت وعید سنائی گئی ہے،تو ایک معمولی انسان کو اتنی جرأت کیسے ہو گئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبر زیر داخل کر دے۔


آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے، اب بتائیے کہ جو چیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کر سکتی ہے؟؟؟


نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کو اپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا، ارشاد ہے:
« { إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } » [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غور کریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے، اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہو سکتی ہے؟؟؟ معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔
لہٰذا زبر زیر لازمی طور پر قران مجید میں پہلے ہی سے موجود ہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھا اور بعد میں اسے لکھ دیا گیا۔



دسویں دلیل:
اگر لکھنے سے کوئی چیز نئی ہو جاتی، تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعد میں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا،پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قران صحابہ کو پڑھ کر سنایا وہ بھی لکھا ہوا نہیں تھا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعد صحابہ کرام نے اسے لکھ لیا، تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ پورا قرآن بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایا ہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کو بعد میں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہو جاتا اسی طرح زبر زیر کو بھی بعد میں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہو جائے گا۔
«تلك عشرة كامله.»

اب اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبر زیر پہلے سے موجود تھا اور اس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا تو ایک نیا عمل ہے، لہٰذا بدعت ہوا۔
تو عرض ہے کہ زبر زیر لکھنا بدعت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجود ہے ملاحظہ ہو:

«عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» [سنن أبى داود 3/ 318 رقم3646]
صحابی رسول عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اور قران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے تلاوت ہو کر امت کو ملا ہے، اور پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ تلاوت زبر زیر کے ساتھ ہی ہوتی ہے، گویا کہ زبر زیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے، لہٰذا مذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجود ہے۔

لہٰذا قران مجید میں زبر لکھنے پر اس حدیث سے دلیل موجود ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں زبر زیر نہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لئے اس جواز پر عمل کرتے ہوئے ہمارے لئے زبر زیر لکھ دیا گیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبر زیر لکھنے پر دلیل موجود ہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔ حوالہ: محدث فورم 10278
   محدث فورم، حدیث\صفحہ نمبر: 621   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3389  
3389. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس آیت کے متعلق سوال کیا: ﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ والی آیت میں كُذِبُوا تشدید کے ساتھ ہے یا بغیر تشدید کے؟ انھوں نے فرمایا: (تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہےکہ) ان کی قوم نے انھیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! انھیں تو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے پھر لفظ "ظن"کیوں استعمال ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے چھوٹے سے عروہ! بلاشبہ ان کو تو اس کا یقین تھا۔ میں نے عرض کیا: شاید یہ لفظ تشدید کے بغیر ہو، یعنی پیغمبروں نےخیال کیا کہ ان کے ساتھ جو مدد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: معاذ اللہ! انبیائے کرام اپنے رب کے متعلق ایسا گمان ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے اتباع (پیروکار) جواپنے پر ایمان لائے تھے اور انھوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3389]
حدیث حاشیہ:

آیت کریمہ میں ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے تشدید سے اس کے معنی ہیں۔
انبیائے کرام کی تکذیب کی گئی۔
دوسرا تشدید کے بغیرجس کے معنی ہیں، ان سے عدہ خلافی کی گئی۔
حضرت عائشہ ؓنے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا اور حدیث میں اس کے معنی متعین کیے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا۔
حضرت عروہ نے عرض کیا:
اگر اس کے معنی قوم کا جھٹلانا ہے تو اس میں ظن و گمان کی کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا اس مقام پر ظن یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری قراءت سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ حضرات انبیائے کرام ؑ کو اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ شاید وہ بھی وہ انھیں جھوٹا خیال کریں گے یعنی کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ انبیائے کرام ؑ کے متبعین کی طرف ہوگی دراصل اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے جب رسول مایوس ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس اللہ کی مدد آپہنچی۔
حضرت عروہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مذکورہ موقف جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی۔
یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ایک نظریاتی موقف کی وضاحت مطلوب ہے۔
اس کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔

حضرت یوسف ؑ بلاوجہ سات سال تک جیل میں پڑے رہے ایسے حالات میں انسان مایوس ہو جاتا ہے۔
پھر اللہ کی مدد آئی اور ان کی رہائی کا سبب پیدا ہواچونکہ مذکورہ آیت سورہ یوسف میں ہے اور خود ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو یہاں ذکر کیا ہے۔
(فتح الباري: 509/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3389   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.