الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
5. باب فِي حُلْوَانِ الْكَاهِنِ
5. باب: کاہن اور نجومی کی اجرت کا بیان۔
Chapter: Regarding The Fee Of A Fortune-Teller.
حدیث نمبر: 3428
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن سفيان، عن الزهري، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه" نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ" نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ".
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ عورت کی کمائی ۲؎، اور کاہن کی اجرت ۳؎ لینے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 113 (2237)، الإجارة 20 (2282)، الطلاق 51 (5346)، الطب 46 (5761)، صحیح مسلم/المساقاة 9 (1567)، سنن الترمذی/البیوع 46 (1276)، النکاح 37 (1133)، الطب 23 (2071)، سنن النسائی/الصید والذبائح 15 (4297)، سنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2159)، (تحفة الأشراف: 10010)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 29(68)، مسند احمد (4/118، 120، 140، 141)، سنن الدارمی/البیوع 34 (2610) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کتا نجس ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر، جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لئے ہو۔
۲؎: چونکہ زنا گناہ کبیرہ ہے اور فحش امور میں سے ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔
۳؎: علم غیب رب العالمین کے لئے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔

Narrated Abu Masud: The Prophet ﷺ forbade the price paid for a dog, the hire paid to a prostitute, and the gift given to a soothsayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3421


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5761) صحيح مسلم (1567)

   صحيح البخاري5761عقبة بن عمرونهى النبي عن ثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   صحيح البخاري2282عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي وحلوان الكاهن
   صحيح البخاري5346عقبة بن عمروثمن الكلب حلوان الكاهن مهر البغي
   صحيح البخاري2237عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   صحيح مسلم4009عقبة بن عمرونهى عن ثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   جامع الترمذي1133عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   جامع الترمذي2071عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   جامع الترمذي1275عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   سنن أبي داود3428عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   سنن أبي داود3481عقبة بن عمرونهى عن ثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   سنن النسائى الصغرى4670عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   سنن النسائى الصغرى4297عقبة بن عمروثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   سنن ابن ماجه2165عقبة بن عمروعن كسب الحجام
   سنن ابن ماجه2159عقبة بن عمرونهى عن ثمن الكلب مهر البغي حلوان الكاهن
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم593عقبة بن عمرو نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن
   بلوغ المرام651عقبة بن عمرونهى عن ثمن الكلب،‏‏‏‏ ومهر البغي،‏‏‏‏ وحلوان الكاهن
   مسندالحميدي455عقبة بن عمروأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي وحلوان الكاهن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 593  
´کتے کی قیمت حرام ہے`
«. . . عن ابى مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن . . .»
. . . سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے، زانیہ کی خرچی سے اور کاہن نجومی کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 593]

تخریج الحدیث:
[و اخرجه البخاري، 2237، و مسلم، 1567، من حديث مالك به]

تفقہ:
➊ یہ حدیث ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کتا بیچنا جائز ہے۔!
➋ اس پر اجماع ہے کہ زانیہ کی خرچی اور کاہن کی مٹھائی حرام ہے۔ [التمهيد 398/8]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثمن الکلب خبیث ومھر البغی خبیث وکسب الحجام خبیث»
کتے کی قیمت خبیث ہے اور زانیہ کی خرچی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔ [صحيح مسلم: 1568/41 [4012] ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا یحل ثمن الکلب»
کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔ [سنن ابي داود: 3484 وسنده حسن]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔ [سنن ابي داود: 3482 وسنده صحيح]
➍ جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیا گیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔ مثلاً:
«عن جابر أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن السنور و الكلب إلا كلب صيد» [سنن النسائي 7/191 ح 4300 و قال: ليس هو بصحيح 7/309 ح 672 و قال: هذا منكر]
یہ روایت ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے «عن» کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابوالزبیر مشہور مدلس تھے۔ ديكهئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص62، 61 رقم 3/101]
«عن ابي هريرة نهى عن مهر البغي و عسب الفحل وعن ثمن السنور وعن الكلب إلا كلب صيد» [السنن الكبري للبيهقي 6/6]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ محمد بن یحییٰ بن مالک الضبی کی توثیق نامعلوم ہے۔
➋ حماد بن سلمہ اور قیس بن سعد دونوں ثقہ ہیں لیکن حماد کی قیس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ قال البیہقی: «ورواية حماد عن قيس فيها نظر» [ايضاً 6/6]
حماد بن سلمہ عن قیس بن سعد والی یہی روایت صحیح ابن حبان میں موجود ہے لیکن اس میں کتا بیچنے کی اجازت نہیں بلکہ لکھا ہوا ہے کہ «إنّ مهر البغي وثمن الكلب والسنور وكسب الحجام من السحت» [الاحسان 217/7 ح 4920]
سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
«زجر النبى صلى الله عليه وسلم عن ذالك»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، 42/1569، 4015]
اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔
③ سنن دار قطنی [72/3، 73 ح 3045، 3046، 3047] میں بعض روایتیں مروی ہیں جن سے بعض کتوں کی فروخت کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ساری روایتیں ضعیف و مردود ہیں اور ان میں سے بعض کے راویوں کو خود امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
آل تقلید کی پیش کردہ بعض مزید روایات کی تحقیق درج ذیل ہے۔
«ابوحنیفة عن الهيثم عن عكرمة عن ابن عباس قال: رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن کلب الصید» [مسند ابي حنيفه راوية الحصكفي ص 169، اردو مترجم ص 319، جامع المسانيد للخوارزمي 10/2، 11]
مسند الحصکفی [متوفيٰ 650 هجری] کا ایک سابق راوی ابومحمد عبد اللہ بن یعقوب الحارثی تھا۔ [اردو مترجم ص24 مسند الحصكفي ص 27]
عبدالله بن محمد بن یعقوب الحارثی محدثین کرام کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ ابوزرعہ أحمد بن الحسین الرازی نے کہا: ضعیف [سوالات حمزه بن يوسف السهمي: 318]
ابو احمد الحافظ اور حاکم نیشاپوری نے کہا: «الأستاذ ينسج الحديث» یہ استاد تھا، حدیث بناتا تھا۔ [كتاب ال قرأت خلف الامام للبيهقي ص178، ح388]
یعنی یہ شخص حدیثیں گھڑنے میں پورا استاد تھا۔ اس پر خطیب بغدادی، خلیلی، ابن جوزی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ نے جرح کی ہے۔ [تاريخ بغداد 126/10 ت 5262، الارشاد للخليلي، 972/3 ت 899، كتاب الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 141/2، ديوان الضعفاء للذهبي 63/2 ت 2297]
نیز دیکھئے: [ميزان الاعتدال 496/2، و لسان الميزان 349، 348/3]
اس کی توثیق کسی قابل اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔
جامع المسانید للخوارزمی کی سندوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔
⓵ خوارزمی بذات خود غیر موثق و مجہول التوثیق ہے۔
⑤ ابومحمد البخاری الحارثی کذاب ہے۔ «كما تقدم»
➌ أحمد بن محمد بن سعید عرف ابن عقدہ جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی نے اس کی تعریف کے باوجود فرمایا کہ یہ خراب آدمی یعنی رافضی تھا۔ [تاريخ بغداد 22/5 ت 2365 و سنده صحيح] اور فرمایا: یہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا تھا۔ [ايضاً وسنده صحيح]
ابوعمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص جامع براثا میں صحابہ کرام یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وغیرہما پر تنقیدیں لکھوایا کرتا تھا لہٰذا میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔ [سوالات حمزةالسهمي: 166، وسنده صحيح]
یہ (ابن عقدہ) چور بھی تھا، اس نے عثمان بن سعید المری کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چرالی تھیں۔ [الكامل فى الضعفاء لابن عدي 209/1 وسنده صحيح، محمد بن الحسين بن مكرم البغدادي ثقه وثقه الدارقطني وغيره]
معلوم ہوا کہ ابن عقدہ چور، ساقط العدالت اور رافضی تھا۔
➍ أحمد بن عبدالله بن محمد الکندی اللجلاج نے امام ابوحنیفہ کے لئے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ [الكامل لابن عدي 197/1] امام ابوحنیفہ ایسی منکر حدیثوں کے محتاج نہیں ہیں۔ والحمدللہ
أحمد بن عبدالله الکندی کی اس کتے والی روایت کو حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے باطل حدیث قرار دیا ہے۔ [الاحكام الوسطي 249/3، لسان الميزان 199/1]
➎ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کے بارے میں اسماء الرجال کے امام یحیی بن معین نے فرمایا: «ليس بشئ» وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين: 1770]
امام ابن معین نے مزید فرمایا: «جھمی کذاب» محمد بن الحسن الشیبانی جہمی کذاب ہے۔ [كتاب الضعفاء للعقيلي 82/4 وسنده صحيح]
دوسری سند میں أحمد بن عبدالله الکندی اور محمد بن الحسن الشیبانی دونوں مجروح ہیں اور الحسن بن الحسین الانطاکی نامعلوم ہے۔
تیسری سند میں ابن عقدہ چور، عبد اللہ بن محمد البخاری کذاب اور أحمد بن عبد اللہ الکندی و محمد بن الحسن دونوں مجروح ہیں۔
چوتھی سند میں حسین بن محمد بن خسرو البلخی، الحسین بن الحسین انطاکی (؟) أحمد بن عبد اللہ اور محمد بن الحسن مجروح ہیں۔
پانچویں سند میں ابن خسرو، حسین بن حسین، أحمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن ہیں۔
چھٹی اور آخری سند میں ابن خسرو معتزلی مجروح ہے۔ دیکھئے: [لسان الميزان 312/2، وسير اعلام النبلاء 592/19]
قاضی ابونصر بن اشکاب اور عبداللہ بن طاہر نامعلوم اور محمد بن الحسن الشیبانی مجروح ہے۔

خلاصۃ التحقیق:
یہ روایت باطل و مردود ہے اور امام ابوحنیفہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض کتوں کی فروخت کے جواز والی سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔
کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [الهدايه للمرغيناني 2/101، واللفظ له، 3/79]
[القدوري ص74 قبل باب الصرف،]
[فتح القدير لابن همام 6/345،]
[بدائع الصنائع 5/142،]
[كنز الدقائق ص 257،]
[البحر الرائق 172/6،]
[الدر المختار مع كشف الاستار 50/2،]
[رد المختار المعروف بفتاويٰ شامي 238/4، 239،]
[حاشية الطحاوي على الدر المختار 127/3،]
[كتاب الفقه على المذاهب الاربعه 232/2،]
اور [الفقه الاسلامي و ادلته 446/4،]
وغیرہ، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتاويٰ عالمگيري 3/115]
! یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
ملا مرغینانی نے لکھا ہے کہ «واذا ذبح مالا يؤكل لحمه طهر جلده و لحمه الا الآدمي و الخنزير» آدمی اور خنزیر کے علاوہ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اسے ذبح کرنے سے اس کا گوشت اور چمڑا پاک ہوتا ہے۔ [الهدايه 441/2 دوسرا نسخه 69/4] یہ فتویٰ بھی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 57   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2159  
´کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، کاہن کی اجرت اور نر سے جفتی کرانے کی اجرت کے احکام کا بیان۔`
ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2159]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حرام اشیاء کی خریدو فروخت بھی حرام ہے۔

(2)
  کاہن اسے کہتے ہیں جو مستقبل کے واقعات کی پشین گوئی کرے اور غیب کی باتیں بتانے کا دعویٰ کرے۔
اس میں نجومی، جوتشی، علم الاعداد، علم جعفر وغیرہ کے نام سے کام کرنے والے اور طوطے وغیرہ سے فال نکالنے والے سبھی شامل ہیں۔

(3)
  کاہن اور نجومی عوام کو دھوکا دے کر روزی کماتے ہیں، اس لیے ان کی کمائی حرام ہے۔
ایسے لوگوں سے مستقبل کی باتیں پوچھنا حرام ہےکیونکہ وہ توحید کے منافی ہیں۔

(4)
  جو لوگ قدموں کے نشان پہچان کر چور کو تلاش کر لیتے ہیں، وہ اس وعید میں شامل نہیں کیونکہ قیافہ شناسی ایک جائز فن ہے جس میں ذہانت کی مدد سے انسان کے ہاتھوں، پاؤں، چہرے وغیرہ کی بناوٹ اور شکل و صورت سے بعض چیزوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

(5)
  دور جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کا پیشہ کراتے تھے اور اسے آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
اسلام میں زنا حرام ہے، خواہ وہ پیسے دے کر کیا جائے، یا دوستی اور محبت کے نام پر باہمی رضامندی سے۔
ناجائز تعلقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا فائدہ خواہ اجرت کے نام سے حاصل ہو، یا تحفے کے نام سے، وہ حرام ہے۔

(6)
  بعض لوگوں نے شکاری کتے کی خریدو فروخت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اسے گھر میں رکھنا جائز ہے۔
اس قول کے مطابق اس کتے کی خریدو فروخت منع ہوگی جسے رکھنا حرام ہے، تاہم احتیاط اس میں ہے کہ ہر قسم کے کتے کی خریدو فروخت سے اجتناب کیا جائے واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2159   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 651  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، بدکار و فاحشہ عورت کی اجرت و کمائی اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 651»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإجارة، باب كسب البغي والإماء، حديث:2282، ومسلم، المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، حديث:1567.»
تشریح:
1 .اس حدیث سے مذکورہ بالا چیزوں‘ یعنی کتے کی قیمت‘ بازاری عورت کے زنا اور کاہن کی کہانت کی اجرت کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
2.کتا بذات خود نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے اور حرام چیز کی قیمت لینا بھی حرام ہے‘ تاہم بعض ائمہ نے شکاری کتے کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اسے گھر میں رکھنا جائز ہے۔
اور اس کی تائید میں وہ سنن نسائی کی روایت (۴۶۷۲) پیش کرتے ہیں۔
اس قول کے مطابق اس کتے کی خرید و فروخت منع ہو گی جسے رکھنا حرام ہے‘ لیکن سنن نسائی کی اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے‘ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ہر قسم کے کتے کی خرید و فروخت سے اجتناب کیا جائے‘ نیز جمہور علماء نے بھی مطلقاً کتے کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
3.زنا اسلام میں قطعی حرام ہے اور اس کی کمائی بھی حرام ہے۔
4.پیشہ ٔکہانت حرام ہے تو اس کی اجرت بھی حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 651   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1133  
´زانیہ کی کمائی کی حرمت کا بیان۔`
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1133]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی،
اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے،
اسی سبب سے کتے کی خریدوفروخت اوراس سے فائدہ اٹھانا منع ہے،
الا یہ کہ کسی اشدضرورت مثلاً گھر،
جائداد اورجانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔

2؎:
چونکہ زنا کبیرہ گناہ اورفحش امورمیں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہو نے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزادعورت۔

3؎:
علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے،
اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے،
اسی طرح اس دعویٰ کی آڑمیں کاہن اورنجومی عوام سے باطل طریقے سے جومال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1133   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3428  
´کاہن اور نجومی کی اجرت کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ عورت کی کمائی ۲؎، اور کاہن کی اجرت ۳؎ لینے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3428]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
کاہن وہ ہیں جو لوگوں کو مستقبل کی خبریں اور قسمت کے احوال بتاتے ہیں۔
یہ کذاب لوگ ہوتے ہیں۔
ان کے پاس جانا ہی حرام ہے۔
اگر کوئی ان کی پیش گوئی کو سچ مانے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2230) انہیں کچھ دینا بھی حرام ہے۔
اور ان کی اپنی کمائی بھی حرام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3428   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.