الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: پانی کے احکام و مسائل
The Book of Water
13. بَابُ : الْقَدْرِ الَّذِي يَكْتَفِي بِهِ الإِنْسَانُ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ
13. باب: وضو اور غسل میں انسان کے لیے کتنا کتنا پانی کافی ہے؟
حدیث نمبر: 348
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو بكر بن إسحاق، قال: حدثنا الحسن بن موسى، قال: حدثنا شيبان، عن قتادة، عن الحسن، عن امه، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتوضا بالمد ويغتسل بالصاع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، قال: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضو، اور ایک صاع سے غسل کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف 17837)، مسند احمد 6/270 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري258عائشة بنت عبد اللهدعا بشيء نحو الحلاب فأخذ بكفه فبدأ بشق رأسه الأيمن ثم الأيسر فقال بهما على وسط رأسه
   صحيح البخاري251عائشة بنت عبد اللهدعت بإناء نحوا من صاع فاغتسلت وأفاضت على رأسها وبيننا وبينها حجاب
   سنن النسائى الصغرى227عائشة بنت عبد اللهيغتسل بمثل هذا
   سنن النسائى الصغرى348عائشة بنت عبد اللهيتوضأ بالمد يغتسل بالصاع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 258  
´سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتداء`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الْحِلَابِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، فَقَالَ: بِهِمَا عَلَى وَسَطِ رَأْسِهِ . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر (پانی کا چلو) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتداء کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ بَدَأَ بِالْحِلاَبِ أَوِ الطِّيبِ عِنْدَ الْغُسْلِ: 258]

تخريج الحديث:
[183۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 6 باب من بدا بالحلاب اوالطيب عندالغسل 258، مسلم 318، دارمي 749]
لغوی توضیح:
«الحلاب» وہ برتن جس میں جانور کا دودھ دوہا جاتا ہے یا اتنا برتن جس میں ایک مرتبہ کا اونٹنی کا دودھ سما جائے۔
فھم الحدیث
ان احادیث میں غسل جنابت کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے اچھی طرح شرمگاہ کو دھویا جائے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے، پھر تین چلّو سر پر پانی ڈالا جائے اور پھر سارے بدن پر پانی بہا دیا جائے (پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف)۔ اس غسل کے بعد نماز ادا کی جا سکتی ہے، دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں۔ [صحيح: صحيح أبوداود 225، أبوداود 250، ترمذي 107، ابن ماجة 579]
غسل کے بعد اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تولیہ استعمال نہیں کیا، لیکن اس کے استعمال سے منع بھی نہیں کیا، لہٰذا اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ علاوہ ازیں میمونہ رضی اللہ عنہا کا تولیہ پیش کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تولیہ استعمال کیا کرتے تھے لیکن آپ نے اس وقت اس سے گریز کیا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ [فتاويٰ إسلامية 222/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 227  
´کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟`
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ مجاہد کے پاس ایک برتن لایا گیا، میں نے اس میں آٹھ رطل پانی کی سمائی کا اندازہ کیا، تو مجاہد نے کہا: مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی قدر پانی سے غسل فرماتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 227]
227۔ اردو حاشیہ:
➊ آٹھ رطل عراقی صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔
➋ اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 201، و صحيح مسلم، الحيض، حديث: 335]
اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ [سنن أبى داود، الطهارة، حديث: 94]
ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہو سکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بےجا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ «والله أعلم»
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 227   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 348  
´وضو اور غسل میں انسان کے لیے کتنا کتنا پانی کافی ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضو، اور ایک صاع سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 348]
348۔ اردو حاشیہ: صاع چار مد کا ہوتا ہے۔ غسل کے لیے کہیں صاع، کہیں تقریباً صاع، کہیں پانچ رطل اور کہیں آٹھ رطل کا ذکر ہے۔ مفہوم اتنا مختلف نہیں۔ تقریباً صاع کے لفظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ صاع تقریباً ڈھائی کلو کا ہوتا ہے، گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ڈھائی، تین کلو پانی سے بھی غسل فرما لیا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 348   
  الشيخ ابوبکر قدوسی حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري251  
سیدہ عائشہ کے غسل والی حدیث پر اعتراض کا جائزہ۔۔
اگلے روز ایک دوست نے ایک منکر حدیث کی پوسٹ پر منشن کیا، موصوف بھی کچے پکے علم اور کا پی پیسٹنگ والے منکر ہیں، کل دن بھر حدیث غسل عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ان کے لایعنی اعتراضات پر بحث چلتی رہی، موصوف نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ نواب وحید الزماں نے حدیث میں موجود لفظ حجاب کا ترجمہ باریک پردہ کیا ہے، دو دن سے ان سے سکرین شارٹ مانگ رہا لیکن موصوف آگے آگے بھاگ رہے ہیں،
اور سب سے دلچسپ یہ ہے کہ اس حدیث میں غسل جنابت کا پوچھا: ہی نہیں گیا۔۔۔ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے احباب آدھی بات پکڑ لیتے ہیں۔۔
اور سیاق و سباق کو جانتے نہیں ہوتے اور جلدی سے نتیجہ نکال لیتے ہیں۔۔
حضور بنیا دی طور پر کچھ افراد میں بحث ہوئی کہ کم از کم پانی سے بندہ کتنے میں غسل کر لیتا ہے۔۔۔۔ اس پر بطور فیصلہ سیدہ کے پاس ان کے بھائی اور بھانجے کو بھیجا گیا۔۔۔۔۔ اور اتفاق سے وہ غسل کرنے جا رہی تھیں یا انہوں نے اس سوال کے جواب میں اتنے پانی سے غسل کر دیا اور انہوں نے بطور مثال اور دلیل اتنا ہی پانی لیا جو کم از کم تھا۔۔۔۔۔۔
آپ نوٹ کیجیے کہ حدیث میں غسل کے طریقے کا دور دور تک ذکر نہیں، جبکہ پانی کی مقدار کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔۔
لیکن منکرین حدیث کی بدقسمتی کہ جلدی سے انکار کرنا ان کا مزاج بن چکا ہوتا ہے اور آدھی ادھوری بات سمجھتے ہیں اور آدھی پکڑتے ہیں اور فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
اندازہ کیجیے ان کے ذہن میں کتنا تعفن ہے کہ غسل خانے کی اوٹ کے لیے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے باریک پردے کا لفظ ترجمہ کرتے ہیں جںکہ عربی متن میں صرف لفظ پردہ ہے۔۔۔
بہر حال اس حوالے سے چونکہ میں دو سال پہلے لکھ چکا تھا تو وہی مضمون مکرر آپ بھی پڑھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔
انکار حدیث کرنے والے دوست دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت اخلاص سے انکار حدیث کرتے ہیں اور اس کو دین کی خدمت سمجھ کے کرتے ہیں دوسرا وہ گر وہ جو سب جانتے ہیں لیکن بد دیانت ہوتے ہیں حقائق کو چھپاتے ہیں -
یہ دونوں گروہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث پر بہت شد و مد سے اعتراض کرتے ہیں اور اس اعتراض میں بہت جذباتی جملے بازی بھی کرتے ہیں -
حدیث کا مفھوم اور خلاصه یہ ہے کہ:
(دو نوجوانوں میں سوال پیدا ہوا کہ کم پانی میں غسل کیونکر ممکن ہے، اور طریق کیا ہے)
اس سوال کے حل کے لیے وہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔۔ اس پر سیدہ جواب دیتی ہیں کہ آپ صاع بھر پانی سے غسل کر لیتے تھے۔۔ اور انہوں نے غسل کر کے دکھا دیا۔۔ اور ان کے درمیان پردہ تھا۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث بہت شور کرتے ہیں، حالانکہ بدباطن ایسے ہیں کہ خود ترجمے میں بد دیانتی سے کام لیتے ہیں - ہمارے لاہور میں منکرین حدیث کا ایک گر وہ تھا جس کا دفتر غالبا ریواز گار ڈن ہوتا تھا۔۔ انہوں نے ایسے ہی بعض احادیث پر اعتراضات کرتے ہوئے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں اس حدیث پر بھی اعتراض کیا تھا۔۔ اور ترجمے میں جھوٹ لکھتے ہوئے تاثر یہ دیا کہ جیسے کوئی اجنبی نوجوان آئے مسلہ پوچھا: تو ام المؤمنین اٹھیں اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غسل کر دکھایا۔۔ اور ضمیر کی مکمل موت کا ثبوت دیتے ہوئے حدیث کے ان الفاظ بیننا و بینها حجاب کا ترجمہ کیا کہ
ان کے درمیان باریک پردہ تھا۔
اور اس کے بعد حسب معمول منکرین حدیث حدیثوں کو اور ائمہ کو خوب برا کہا: -
اب اگر کوئی عام آدمی بھی یہ ترجمہ پڑھے گا اور ساتھ ان منافقین کا تبصرہ تو اک بار تو اس کا دماغ خراب ہو ہی جائے گا۔۔۔
حدیث میں سوال کے واسطے آنے والے دونوں نوجوانوں کا آپ سے رشتہ ذکر نہیں، لیکن عقل، فہم کا تقاضا ہے کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا کرتا ہے تو اس کی تحقیق کرتے ہیں نہ کہ شیطان کے چیلے بن کے اس کی چاکری پر لگ جاتے ہیں۔۔۔ ہمارے منکرین حدیث مگر ایسا ہی کرتے ہیں -
جو دو نوجوان آپ کے پاس سوال کو آئے ایک ان میں ابوسلمہ تھے جو سیدنا عبد الرحمان کے بیٹے تھے اور اماں عائشہ کے بھتیجے تھے یعنی اماں صرف مومن ہونے کے حوالے سے کی ماں ہی نہ تھیں بلکہ سگی پھوپھی بھی تھیں - اور پھوپھو کیا ماں ہی نہیں ہوتی؟
دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے۔۔۔ اور دودھ شریک بھائی مکمل محر م ہوتا ہے۔۔۔ اندازہ کیجئے منکرین حدیث کس طرح سادہ لوح افراد کو دھوکہ دیتے ہیں -
اب منکرین حدیث کے دماغ میں چونکہ پہلے سے تعفن ہوتا ہے سو اس سبب مثبت سوچنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔۔ ستر کا ترجمہ کیا باریک پردہ سوال یہ ہے باریک کی صفت کہاں سے آگئی۔۔۔۔ بھائی یہی وہ اندر کا گند ہوتا ہے جس سے ائمہ حدیث تو کیا امہات المؤمنین بھی محفوظ نہ رہیں - حدیث میں سیدھی بات ہے کہ ان کے درمیان پردہ تھا۔۔ اور سیدہ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ مثبت سوچا جائے کہ پردہ دیوار کا ہی تھا جیسے غسل خانوں کی ہوتی ہے۔۔ لیکن ضمیر مردہ تو پردہ باریک دکھائی دیتا ہے -
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جب دماغ میں موجود غلاظت سوچنے دے تو بندہ مثبت سوچے نا -
اب بندہ اس حدیث کو ڈیڑھ ہزار سال امت نے اس طرح سوچا:
اماں کے بھائی اور بھتیجے آئے، غسل کے پانی کی مقدار پوچھی۔۔۔۔
(مثبت سوچ) ممکن ہے کہ اتفاق سے اماں غسل کا ارادہ کر رہی تھیں، اور بچے آگئے اور یہ سوال پوچھا:۔
سو بچوں نے سوال پوچھا: تو اماں نے غسل کر کے دکھا دیا - انہوں نے سر پر تین بار پانی ڈالا -
(مثبت سوچ) چونکہ محرم تھے سو سر دکھائی دے رہا تھا جس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔
ان کے بیچ پردہ تھا۔
(مثبت سوچ) پردہ دیوار کا ہی ہو گا۔
مقصود صرف یہ تھا کہ اتنے کم پانی میں غسل ممکن ہے - عربوں میں پانی کی کمی ایک عام سی بات تھی۔۔ صحراؤں کے سفر میں نکلتے تو ایسے مسائل پیش آنا معمول کی بات تھی۔ سو سوال بھی کیے جاتے۔۔ خانگی مسائل میں بہترین جواب امہات المؤمنین ہی دے سکتی تھیں کہ ان سے بڑھ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو نہ جانتا تھا۔۔۔ سو یہ ایک عام سا اور آسان ساسوال تھا۔۔ لیکن عرض کر چکا کہ:
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو ک یا کہئے۔۔۔
   مذید تشریحات، حدیث\صفحہ نمبر: 0   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.