الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نکاح کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
15. باب زَوَاجِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَنُزُولِ الْحِجَابِ وَإِثْبَاتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ:
15. باب: نکاح زینب رضی اللہ عنہا اور نزول حجاب اور ولیمہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3507
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جعفر يعني ابن سليمان ، عن الجعد ابي عثمان ، عن انس بن مالك ، قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل باهله، قال: فصنعت امي ام سليم حيسا فجعلته في تور، فقالت: يا انس، اذهب بهذا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقل: بعثت بهذا إليك امي وهي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا لك منا قليل يا رسول الله، قال: فذهبت بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن امي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا لك منا قليل يا رسول الله، فقال: " ضعه "، ثم قال: " اذهب، فادع لي فلانا وفلانا وفلانا ومن لقيت وسمى رجالا "، قال: فدعوت من سمى ومن لقيت، قال: قلت لانس: عدد كم كانوا؟ قال: زهاء ثلاث مائة، وقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا انس، هات التور "، قال: فدخلوا حتى امتلات الصفة والحجرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليتحلق عشرة عشرة، ولياكل كل إنسان مما يليه "، قال: فاكلوا حتى شبعوا، قال: فخرجت طائفة ودخلت طائفة حتى اكلوا كلهم، فقال لي: " يا انس، ارفع "، قال: فرفعت فما ادري حين وضعت كان اكثر ام حين رفعت؟، قال: وجلس طوائف منهم يتحدثون في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وزوجته مولية وجهها إلى الحائط، فثقلوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم على نسائه، ثم رجع، فلما راوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجع، ظنوا انهم قد ثقلوا عليه، قال: فابتدروا الباب فخرجوا كلهم وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ارخى الستر، ودخل وانا جالس في الحجرة، فلم يلبث إلا يسيرا حتى خرج علي، وانزلت هذه الآية، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وقراهن على الناس: يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي سورة الاحزاب آية 53، إلى آخر الآية، قال الجعد: قال: انس بن مالك: انا احدث الناس عهدا بهذه الآيات، وحجبن نساء النبي صلى الله عليه وسلم.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ، قَالَ: فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ، فقَالَت: يَا أَنَسُ، اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْ: بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " ضَعْهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ، فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ وَسَمَّى رِجَالًا "، قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: عَدَدَ كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ، وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَنَسُ، هَاتِ التَّوْرَ "، قَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتِ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ "، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ، فقَالَ لِي: " يَا أَنَسُ، ارْفَعْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ؟، قَالَ: وَجَلَسَ طَوَائِفُ مِنْهُمْ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ، فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ رَجَعَ، فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ، ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ، وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ سورة الأحزاب آية 53، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ الْجَعْدُ: قَالَ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ، وَحُجِبْنَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جعفر بن سلیمان نے ہمیں ابوعثمان جعد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے۔ میری والدہ ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے حَیس تیار کیا، اسے ایک پیالہ نما بڑے برتن میں ڈالا، اور کہا: انس! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور عرض کرو: یہ میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، اور وہ آپ کو سلام عرض کرتی ہیں اور کہتی ہیں: اللہ کے رسول! یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تھوڑی سی چیز ہے۔ کہا: میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری والدہ آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں: اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے ہماری طرف سے تھوڑی سی چیز ہے۔ آپ نے فرمایا: "اسے رکھ دو" (آپ نے اسے بھی ولیمے کے کھانے کے ساتھ شامل کر لیا) پھر فرمایا: "جاؤ، فلاں، فلاں اور فلاں اور جو لوگ تمہیں ملیں انہیں بلا لاؤ۔" آپ نے چند آدمیوں کے نام لیے۔ کہا: میں ان لوگوں کو جن کے آپ نے نام لیے اور وہ جو مجھے ملے، ان کو لے آیا۔ کہا: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ (سب) تعداد میں کتنے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو کے لگ بھگ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "انس! برتن لے اؤ" کہا: لوگ اندر داخل ہوئے حتیٰ کہ صفہ (چبوترہ) اور حجرہ بھر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس دس افراد حلقہ بنا لیں، اور ہر انسان اپنے سامنے سے کھائے۔" ان سب نے کھایا حتیٰ کہ سیر ہو گئے، ایک گروہ نکلا تو دوسرا داخل ہوا (اس طرح ہوتا رہا) حتیٰ کہ ان سب نے کھانا کھا لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا: "انس! اٹھا لو" تو میں نے (برتن) اٹھا لیے، مجھے معلوم نہیں کہ جب میں نے (کھانا) رکھا تھا اس وقت زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا اُس وقت۔ کہا: ان میں سے کچھ ٹولیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کی اہلیہ دیوار کی طرف رخ کیے بیٹھی تھیں، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے، (یکے بعد دیگرے) اپنی ازواج کو سلام کیا، پھر واپس ہوئے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ واپس ہو گئے ہیں، تو انہوں نے محسوس کیا کہ وہ آپ پر گراں گزر رہے ہیں۔ کہا: تو وہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکے اور سب کے سب نکل گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آگے) تشریف لائے، حتیٰ کہ آپ نے پردہ لٹکایا اور اندر داخل ہو گئے اور میں حجرہ (نما صفے) میں بیٹھا ہوا تھا، آپ تھوڑی ہی دیر ٹھہرے حتی کہ (دوبارہ) باہر میرے پاس آئے، اور (آپ پر) یہ آیت نازل کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور لوگوں کے سامنے انہیں (آیتِ کریمہ کے جملہ کلمات کو) تلاوت فرمایا: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، کھانا پکنے کا انتظار کرتے ہوئے نہیں، بلکہ جب تمہیں دعوت دی جائے تب تم اندر جاؤ، پھر جب کھانا کھا چلو تو منشتر ہو جاؤ، اور (وہیں) باتوں میں دل لگاتے ہوئے نہیں (بیٹھے رہو۔) بلاشبہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتی ہے" آیت کے آخر تک۔ جعد نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ان آیات کے ساتھ (جو ایک ہی طویل آیت میں سمو دی گئیں) میرا تعلق سب سے زیادہ قریب کا ہے، اور (ان کے نزول ہوتے ہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رضی اللہ عنھن کو پردہ کرا دیا گیا
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاس گئے، میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (کھجور، ستو اور گھی کا) مالیدہ (حَیس) تیار کر کے ایک تھال میں رکھا اور کہا، اے انس! اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرو، اور عرض کرو، یہ میری والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرتی ہیں اور کہتی ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ہماری طرف سے تھوڑا سا ہدیہ ہے، میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میری ماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتی ہیں اور عرض کرتی ہیں، یہ ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معمولی سا تحفہ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رکھ دو۔ پھر فرمایا: جاؤ میری طرف سے فلاں، فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ، اور (ان کے علاوہ) جو بھی تمہیں ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کے نام لیے، تو میں بلا لایا، جن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے اور جو اور مجھے ملے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں، میں نے پوچھا، ان کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے کہا، تقریبا تین سو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے انس! تھال لے آؤ۔ لوگ اندر آ گئے، حتی کہ چبوترہ اور حجرہ بھر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس دس آدمی حلقہ بنا لیں اور ہر آدمی اپنے آ گے سے کھائے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک گروہ نکلتا تو دوسرا گروہ داخل ہو جاتا، حتی کہ تمام لوگوں نے کھانا کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے انس! اٹھا لو۔ میں نے اٹھایا تو میں جان نہیں سکا جب میں نے رکھا تھا اس وقت کھانا زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا اس وقت زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں لوگوں میں سے کچھ حضرات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باتوں میں مشغول ہو کر بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ دیوار کی طرف منہ پھیر کر بیٹھی ہوئی تھیں، ان کا بیٹھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کو سلام کرنے نکل گئے۔ پھر واپس آئے، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لوٹے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گرانی کا سبب بنے ہیں تو وہ جلدی جلدی دروازے کی طرف لپکے، اور سب نکل گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پردہ لٹکا کر اندر داخل ہو گئے، اور میں (پردہ سے باہر) حجرہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر بعد نکل کر میرے پاس آ گئے اور یہ آیت اتری، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں کو سنائی: (اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے، نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا لیکن جب تم کو بلایا جائے تو داخل ہو، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو، یہ باتیں نبی کے لیے باعث اذیت تھیں، لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے (شرم و حیا کی بنا پر) اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں شرم نہیں کرتا (کسی کا لحاظ نہیں کرتا) اور جب تم کو نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگو، یہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے کبھی اس کے بعد نکاح کرو یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین باتیں ہیں۔) (احزاب: 53)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1428


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3507  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا بیان موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے چند آدمیوں کا کھانا تقریباً تین سو آدمیوں نے کھایا،
لیکن کھانا پھر بھی کم نہ ہوا اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ کھانا اب زیادہ ہے یا پہلے زیادہ تھا۔
نیز اس موقع پر،
عورتوں کے لیے خصوصی طور پر ازواج مطہرات کے لیے جو امت کے لیے ماں کی حیثیت رکھتی ہیں پردے کے احکام نازل ہوئے،
جن کی یہ حکمت بیان کی گئی کہ اگر کسی کو ان سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ دندناتا ہوا ان کے سامنے نہ چلا جائے بلکہ پردے کی اوٹ سے مانگے،
کیونکہ یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی،
اب اگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے دلوں کی پاکیزگی اور طہارت کا طریقہ پردہ ہے اور یہ طریقہ اس ذات کا تجویز کردہ ہے جس نے انسان کا دل بنایا ہے اور اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہے تو اب ہمارے لیے یہ کہنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ پردہ تو دل کی حیا کا نام ہے اگر آنکھ میں شرم ہے اور دل میں حیا ہے تو پردہ کی کیا ضرورت کیا آنکھ میں شرم اور دل میں حیا پردہ کے بغیر ممکن ہے،
یا ہماری آنکھوں میں شرم اور دل میں حیا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے بھی بڑھ کر ہے،
جن کے لیے ہر مسلمان کی آنکھ میں احترام و عقیدت کا جذبہ اور ہر مسلمان کے دل میں محبت و عظمت کا داعیہ موجزن تھا اور ہے،
اگر ان کو پردے کی ضرورت تھی تو آج تو اس سے بدرجہازیادہ ضرورت ہے جبکہ شرم و حیا کا جنازہ بھی نکل چکا ہے،
اور عورتیں تنگ چست نیم عریاں بلکہ شوخ و شنگ،
رنگ برنگ کے زرق و برق لباس زیب تن کر کے،
شمع محفل بننے کی شوقین سڑکوں،
بازاروں،
دفتروں،
ہسپتالوں میں دعوتِ نظارہ دیتی پھرتی ہیں اور گینگ ریپ کے واقعات عام ہو رہے ہیں بلکہ گھروں تک سے جواب لڑکیوں کو اٹھایا جا رہا ہے،
دن بدن یہ مسئلہ شدت اور سنگین صورت اختیار کر رہا ہے،
اور اب تو ننھے منے بچوں کو اٹھا کر بدفعلی کر کے قتل کرنے کے واقعات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور نوجوان بچوں بچیوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات کی ویڈیو بنا کر ان کے ماں باپ کو بلیک میل کیا جا رہا ہےاور ویڈیو دکھانے کی دھمکیاں دے کر ان سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3507   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.