الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
131. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
131. باب: جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔
Chapter: The Permissibility Of Not Performing Ghusl On Friday.
حدیث نمبر: 354
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو افضل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجمعة 5 (497)، سنن النسائی/الجمعة 9 (1381)، مسند احمد (5/15، 16، 22)، (تحفة الأشراف: 4587) (حسن) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے،متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جمعہ کے لئے وضو کافی ہے اور غسل افضل ہے فرض نہیں۔

Narrated Samurah: If any one of you performs ablution (on Friday) that is all right; and if any of you takes a bath, that is better.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 354


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (540)
وصححه ابن خزيمة (1757) ورواه شعبة عن قتادة به والحسن البصري صرح بالسماع عند الطوسي في مختصر الأحكام (3/10 ح 334-/467) وسنده حسن

   سنن النسائى الصغرى1381سمرة بن جندبمن توضأ يوم الجمعة فبها ونعمة ومن اغتسل فالغسل أفضل
   جامع الترمذي497سمرة بن جندبمن توضأ يوم الجمعة فبها ونعمة ومن اغتسل فالغسل أفضل
   سنن أبي داود354سمرة بن جندبمن توضأ يوم الجمعة فبها ونعمة ومن اغتسل فهو أفضل
   بلوغ المرام101سمرة بن جندبمن توضا يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 101  
´جمعہ کے روز غسل`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے روز جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو بہرحال افضل ہے اور بہترین ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 101]

لغوی تشریح:
«فَبِهَا» ہا سے مراد سنت یا رخصت یا خصلتِ حمیدہ ہے اور یہ جار مجرور «أَخَذَ» محذوف کے متعلق ہے۔
«نِعْمَتْ» یہ فعل مدح ہے۔ اس کا فاعل «هِيَ» ضمیر مستتر ہے جس کا مرجع سنت یا رخصت یا خصلت حمیدہ ہے اور مخصوص بالمدح محذوف ہے، یعنی «هٰذِهٖ» ۔

فائدہ:
یہ حدیث جمعے کے روز غسل کے عدم وجوب کے مؤقف کی تائید کرتی ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ لیکن جو حدیث اس (جمعے کے روز غسل کرنے) کے وجوب پر دلالت کرتی ہے وہ عدم وجوب پر دلالت کرنے والی حدیث سے صحیح، زیادہ راجح اور زیادہ قوی ہے، اس لیے اصح، راجح اور قوی کو اختیار کرنا زیادہ محتاط طریقہ ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا سَمُرَہ رضی اللہ عنہ) سین کے فتحہ اور میم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ «جُنْدُب» جیم پر ضمہ، نون ساکن اور دال پر بھی ضمہ ہے۔ مشہور صحابی رسول ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ فزار قبیلہ کے فرد ہونے کی وجہ سے فزاری کہلائے۔ انصار سے حلیفانہ روابط و تعلقات تھے۔ یہ ان حفاظ میں سے تھے، جنھیں بکثرت احادیث و قرآن یاد تھا۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ خوارج کے گروہ حروریہ کے سلسلے میں بڑے سخت تھے۔ 59 ہجری کے آخر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 101   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 354  
´جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 354]
354۔ اردو حاشیہ:
ان احادیث سے یہ استدلا ل کیا جاتا ہے کہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے۔ بلاشبہ ابتداء حکم کی بنیادی وجہ یہی تھی جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، مگر مسلمان جب اس کے قائل و فاعل ہو گئے تو انہیں اس کا شرعی اعتبار سے پابند کر دیا گیا، جیسا کہ گزشتہ باب میں صحیح احادیث سے ثابت ہوا ہے۔ اب اگرچہ وہ بنیادی سبب تو موجود نہیں مگر حکم وجوب باقی ہے جیسے کہ مسئلہ حج میں طواف قدوم میں رمل کرنا (آہستہ آہستہ دوڑنے) کا بنیادی وجود نہیں ہے، مگر حکم وجوب باقی ہے، اس لیے راجح یہی ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں غفلت بہت بڑی محرومی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 354   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 497  
´جمعہ کے دن وضو کرنے کا بیان۔`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 497]
اردو حاشہ: 1؎:
یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جمعہ کاغسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضوکی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھاقراردیا گیا ہے اوردوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔
نوٹ:

(یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے،
اورسب کی سندیں ضعیف ہیں،
یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے،
ہاں تمام طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے،
متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 497   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.