الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
7. باب فِي قَضَاءِ الْقَاضِي إِذَا أَخْطَأَ
7. باب: اگر قاضی غلط فیصلہ کر دے تو جس کا اس میں فائدہ ہے اس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔
Chapter: Regarding the Judges judge when he is mistaken.
حدیث نمبر: 3583
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن عروة، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه، فمن قضيت له من حق اخيه بشيء فلا ياخذ منه شيئا، فإنما اقطع له قطعة من النار".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المظالم 16 (2458)، الشھادات 27 (2680)، الحیل 10 (6967)، الأحکام 20 (7169)، 29 (7181)، 31 (7185)، صحیح مسلم/الأقضیة 3 (1713)، سنن الترمذی/الأحکام 11 (1339)، سنن النسائی/ القضاة 12(5403)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 5 (2317)، (تحفة الأشراف: 18261)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 1 (1)، مسند احمد (6/307،320) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہو گا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔

Umm Salamah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: "I am only a human being, and you bring your disputes to me, some perhaps being more eloquent in their plea than others, so that I give judgement on their behalf according to what I hear from them. Therefore, whatever I decide fr anyone which by right belongs to his brother, he must not take anything, for I am granting him only a portion of Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3576


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6967) صحيح مسلم (1713)

   سنن أبي داود3583أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3583  
´اگر قاضی غلط فیصلہ کر دے تو جس کا اس میں فائدہ ہے اس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3583]
فوائد ومسائل:

قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔
اور مقدمے کے فریقین بالعموم اپن طور پر خوب جان رہے ہوتے ہیں۔
کہ حق کس کا ہے اور باطل پر کون ہے؟ الا ما شاء اللہ۔
تو جہاں معاملہ صرف ہو وہاں ظالم کو اپنے بھائی کا حق مارتے ہوئے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قاضی کے فیصلے کے باوجود آگ کا ٹکڑا لے رہا ہے۔


فیصلہ کرنے میں قاضی سے خظا کرسرزد ہوجانا اس کے لئے معاف ہے۔


رسول اللہ ﷺ کے اس بیان سے واضح ہواکہ وہ غیب نہ جانتے تھے۔


یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بشر ہونے پر واضح دلالت کرتی ہے۔


رسول اللہ ﷺ بعض فیصلے اپنے اجتہاد سے کرتے تھے۔
امت کے قضی ہمیشہ اجتہاد ہی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اور ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا اجتہاد اور طریقہ اجتہاد بہترین نمونہ اور حجت ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3583   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.