الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
8. بَابُ : السَّوَادِ الأَعْظَمِ
8. باب: سواد اعظم (بڑی جماعت کے ساتھ رہنے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 3950
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا معان بن رفاعة السلامي , حدثني ابو خلف الاعمى , قال: سمعت انس بن مالك , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن امتي لن تجتمع على ضلالة , فإذا رايتم اختلافا فعليكم بالسواد الاعظم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ , حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى , قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ , فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1715، ومصباح الزجاجة: 1387) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)

وضاحت:
۱؎: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہو گی، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہو گا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہو گا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، ان شاء اللہ العزیز۔ اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ: «فعليكم بالسواد الأعظم» کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخرکرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ: «من الذين فرقوا دينهم وكانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون» (سورة الروم:32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے: «وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون» (سورة الأنعام: 116) اے نبی! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کر سکتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك» میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پرقائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہو گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آ پہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے (صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ۷۴۶۰)، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: «لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس» (کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ «طائفہ» کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں «عصابہ» کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہو گی، کسی دور میں کسی جگہ «طائفہ» کے برابر اور کسی زمانہ میں «عصابہ» کے برابر۔ اور یہ کہ «وهم ظاهرون على الناس» اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے سبحان اللہ، نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، پر نبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہو سکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے،اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا دون الجملة الأولى

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
معان بن رفاعة: لين الحديث
وأبو خلف حازم بن عطاء: متروك ورماه ابن معين بالكذب (تقريب: 8083)
وللحديث شاهد ضعيف عند أبي نعيم الأصبھاني في أخبار أصفهان (208/2) والسند ضعفه البوصيري
و لحجية الإجماع انظر سنن الترمذي بتحقيقي (الأصل: 2166) والحمد للّٰه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 517

   سنن ابن ماجه3950أنس بن مالكأمتي لن تجتمع على ضلالة إذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم
   مشكوة المصابيح174أنس بن مالكاتبعوا السواد الاعظم فإنه من شذ شذ في النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 174  
´جماعت کی اہمیت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ من حَدِيث أنس . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بڑی جماعت کی پیروی کرو اس لیے کہ جو بڑی جماعت سے الگ ہوا وہ تنہا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ (اس بڑی جماعت حقہ سے مسلمانوں کی بڑی جماعت صحابہ کرام اور اسلاف عظام کی جماعت مراد ہے وہ جماعت حقہ ہے اصلی موحد ومتبع سنت ہے)۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 174]

تحقیق الحدیث
اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
◄ اس روایت میں معان بن رفاعہ السلامی لین الحدیث (کمزور حدیثیں بیان کرنے والا) راوی ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 6747]
◄ جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے جیسا کہ تہذیب الکمال سے ظاہر ہے۔ [تهذيب الكمال 7؍149]
◄ اس روایت کا دوسرا راوی ابوخلف الاعمی (حازم بن عطاء) ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا: «متروك.» إلخ [تقريب التهذيب: 8083]
◄ ابوحاتم الزازی نے کہا:
«شيخ منكر الحديث ليس بالقوي»
وہ منکر حدیثیں بیان کرنے والا شیخ (اور) القوی نہیں تھا۔ [الجرح و التعديل 3 279]
◄ بوصیری نے کہا:
یہ سند ضعیف ہے۔ الخ [زوائد ابن ماجه ص510]
◄ اخبار اصبہان لابی نعیم الاصبہانی [208/2] میں اس روایت کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے جس میں ابوعون الانصاری مجہول الحال ہے اور بقیہ بن الولید (صدوق مدلس) کی تصریح سماع نہیں۔
↰ خلاصہ یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے۔

فائدہ:
اگر کوئی شخص اس ضعیف روایت سے استدلال کرنے پر بضد ہے تو اس کی خدمت میں عرض ہے کہ محدث ابن ابی عاصم (متوفی 287ھ) نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد (بطور تشریح یا بطور روایت) یہ اضافہ لکھا ہے:
«الحق وأهله»
یعنی سواد اعظم سے مراد حق اور اہل حق ہیں۔ دیکھئے: [السنة لابن ابي عاصم حديث 84]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 174   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.