الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
10. بَابُ : التَّثَبُّتِ فِي الْفِتْنَةِ
10. باب: فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔
Chapter: Standing firm during times of tribulation
حدیث نمبر: 3960
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا صفوان بن عيسى , حدثنا عبد الله بن عبيد مؤذن مسجد حردان , قال: حدثتني عديسة بنت اهبان , قالت: لما جاء علي بن ابي طالب هاهنا البصرة دخل على ابي , فقال: يا ابا مسلم , الا تعينني على هؤلاء القوم , قال: بلى , قال: فدعا جارية له , فقال: يا جارية , اخرجي سيفي , قال: فاخرجته فسل منه قدر شبر , فإذا هو خشب , فقال: إن خليلي وابن عمك صلى الله عليه وسلم عهد إلي" إذا كانت الفتنة بين المسلمين فاتخذ سيفا من خشب" , فإن شئت خرجت معك , قال: لا حاجة لي فيك , ولا في سيفك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ حُرْدَانَ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُدَيْسَةُ بِنْتُ أُهْبَانَ , قَالَتْ: لَمَّا جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ هَاهُنَا الْبَصْرَةَ دَخَلَ عَلَى أَبِي , فَقَالَ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ , أَلَا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ , قَالَ: بَلَى , قَالَ: فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ , فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ , أَخْرِجِي سَيْفِي , قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ , فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ , فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ" إِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ" , فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ , قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيكَ , وَلَا فِي سَيْفِكَ.
عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہو جائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا: مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 33 (2203)، (تحفة الأشراف: 1734)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/69، 6/393) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کر دیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذي2203أهبان بن صيفيعهد إلي إذا اختلف الناس أن أتخذ سيفا من خشب
   سنن ابن ماجه3960أهبان بن صيفيإذا كانت الفتنة بين المسلمين فأتخذ سيفا من خشب فإن شئت خرجت معك قال لا حاجة لي فيك ولا في سيفك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3960  
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔`
عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3960]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لکڑی کی تلوار جنگ میں کام نہیں آسکتی۔
لکڑی کی تلوار بنوانے کا مقصد جنگ وجدل سے الگ رہنا ہے۔

(2)
مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے موقع پر کسی ایک فریق کا ساھ دینے کی بجائے دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کرنا زیادہ ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3960   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2203  
´فتنے کے زمانہ میں لکڑی کی تلوار بنانے کا بیان۔`
عدیسہ بنت اہبان غفاری کہتی ہیں کہ میرے والد کے پاس علی رضی الله عنہ آئے اور ان کو اپنے ساتھ لڑائی کے لیے نکلنے کو کہا، ان سے میرے والد نے کہا: میرے دوست اور آپ کے چچا زاد بھائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے وصیت کی کہ جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں، لہٰذا میں نے بنا لی ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے لے کر آپ کے ساتھ نکلوں، عدیسہ کہتی ہیں: چنانچہ علی رضی الله عنہ نے میرے والد کو چھوڑ دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2203]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لکڑی کی تلوار بنانے کا مطلب فتنہ کے وقت قتل وخوں ریزی سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2203   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.