الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4005
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، انه سمع عبد الله بن عمر رضي الله عنهما يحدث، ان عمر بن الخطاب حين تايمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة السهمي , وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قد شهد بدرا توفي بالمدينة، قال عمر: فلقيت عثمان بن عفان فعرضت عليه حفصة، فقلت: إن شئت انكحتك حفصة بنت عمر، قال: سانظر في امري فلبثت ليالي، فقال: قد بدا لي ان لا اتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت ابا بكر، فقلت: إن شئت انكحتك حفصة بنت عمر فصمت ابو بكر فلم يرجع إلي شيئا , فكنت عليه اوجد مني على عثمان فلبثت ليالي، ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فانكحتها إياه فلقيني ابو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة فلم ارجع إليك، قلت: نعم، قال: فإنه لم يمنعني ان ارجع إليك فيما عرضت إلا اني قد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها , فلم اكن لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو تركها لقبلتها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَدْ شَهِدَ بَدْرًا تُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا , فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا , فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں تھے اور بدر کی لڑائی میں انہوں نے شرکت کی تھی اور مدینہ میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ملاقات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کر دوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہوئی ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طریقہ عمل عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف ہوا۔ کچھ دنوں میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا (مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سے نکاح کر لوں) اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا۔ اگر آپ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کر لیتا۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab said, "When (my daughter) Hafsa bint `Umar lost her husband Khunais bin Hudhaifa As-Sahrni who was one of the companions of Allah's Apostle and had fought in the battle of Badr and had died in Medina, I met `Uthman bin `Affan and suggested that he should marry Hafsa saying, "If you wish, I will marry Hafsa bint `Umar to you,' on that, he said, 'I will think it over.' I waited for a few days and then he said to me. 'I am of the opinion that I shall not marry at present.' Then I met Abu Bakr and said, 'if you wish, I will marry you, Hafsa bint `Umar.' He kept quiet and did not give me any reply and I became more angry with him than I was with `Uthman . Some days later, Allah's Apostle demanded her hand in marriage and I married her to him. Later on Abu Bakr met me and said, "Perhaps you were angry with me when you offered me Hafsa for marriage and I gave no reply to you?' I said, 'Yes.' Abu Bakr said, 'Nothing prevented me from accepting your offer except that I learnt that Allah's Apostle had referred to the issue of Hafsa and I did not want to disclose the secret of Allah's Apostle , but had he (i.e. the Prophet) given her up I would surely have accepted her."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 342


   صحيح البخاري4005عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5145عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5122عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3261عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3250عبد الله بن عمرخطبها إلي رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال سمعت رسول الله يذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5145  
´پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کرنا`
«. . . أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ، قَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا . . .»
. . . سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5145]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5145 کا باب: «بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب سے خطبہ ترک کرنے کی تفسیر کو واضح کر رہے ہیں اور تحت الباب ام المومنیں حفصہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ کو پیش فرماتے ہیں، حالانکہ تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا جا رہا ہے وہ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ تحت الباب حدیث میں خطبہ ترک کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

چنانچہ ابن بطال اس اعتراض کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«تقدم فى الباب الذى قبله تفسير ترك الخطبة صريحا فى قوله: حتى ينكح او يترك وحديث عمر فى قصة حفصه رضي الله عنها لا يظهر منه تفسير ترك الخطبة لأن عمر لم يكن علم أن النبى صلى الله عليه وسلم خطب حفصه، قال: ولكنة قصد معنى دقيقاً يدل على ثقوب ذهنة ورسوخه الاستنباط.» [فتح الباري لابن حجر: 172/10]
یعنی بظاہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس واقعہ کی کوئی مناسبت ترجمۃ الباب سے معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس واقعہ میں خطبہ ترک کرنے کی کوئی تفسیر معلوم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اس بات کے تحت ذکر کر کے ایک لطیف اور دقیق استنباط فرمایا ہے اور وہ یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام بھیجیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو رد نہیں کریں گے۔
لہٰذا ابن بطال رحمہ اللہ کی مطابقت سے سے ترجمہ الباب اور حدیث میں بہترین مناسبت قائم ہو جاتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ کی اس مناسبت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وما ابداه ابن بطال ادق وأولي»
یعنی ابن بطال کا قول دقیق اور اولیٰ ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب مذکورہ واقعہ ذکر کر کے «خطبه على الخطبه» کی مطلقاً ممانعت بیان فرمائی ہے، کیونکہ مذکورہ واقعہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار فرما دیا تھا، حالانکہ خاطب اور ولی کے مابین ابھی بات طے نہیں ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا گیا تھا ابھی صرف ارادہ اور خیال تھا تو جس صورت میں پیغام نکاح بھیج دیا گیا ہو اس میں بطریق اولیٰ خطبہ نہیں بھیجنا چاہیے۔ [المتواري: ص291]
اسی مفہوم کے قریب قریب مطابقت ابن الملقن نے بھی دی ہے۔ [التوضيح: 443/24]

محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«أن الامام البخاري اشاره أن اراده الرجل الخطبة أيضاً داخل فى الخطبة، لأن ابابكر امتنع عن الخطبة لعلمه إرداة صلى الله عليه وسلم الخطبة، مع أنه صلى الله عليه وسلم لم يخطب بعد، واذا كانت إراداة الخطبة فى حكم الخطبة فترك الإراداة تركها، فطابق الحديث بالترجمة.» [الابواب و التراجم: 218/5]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب آدمی کا خطبہ کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ارادہ خطبہ میں دخل ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے، خطبہ سے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کو جانتے تھے، جبکہ ارادہ خطبہ، خطبہ میں داخل ہے۔ پس انہوں نے اپنے خطبہ کے ارادے کو ترک کر دیا پس یہیں سے مطابقت ہے ترجمۃ الباب سے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقته للترجمه تؤخذ من قوله فلقيني ابوبكر الى اخره، فان فيه اعتزار أبى بكر لعمر عن ترك خطبة واجابته لعمر لعلمه بأنه صلى الله عليه وسلم يريد خطبتها وهذا تفسير من ابي بكر لترك الخطبة.» [عمدة القاري للعيني: 185/20]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں الفاظ ہیں، «فلقيني ابوبكر» پس ان الفاظوں میں عذر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، پس یہ تفسیر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کی۔

شارحین کے اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، پس یہی تفسیر خطبہ ہے اور یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4005  
4005. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حفصہ‬ ؓ ک‬ے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ سہمی ؓ کی وفات ہو گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور وہ مدینہ میں فوت ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان ؓ سے ملا اور ان سے حفصہ‬ ؓ ک‬ا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تمہارا ارادہ ہو تو اپنی دختر حفصہ‬ ؓ ک‬ا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: میں اس پر غور کروں گا۔ پھر میں کئی راتیں ٹھہرا رہا تو حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا: ابھی میں یہی مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان دنوں نکاح نہ کروں۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ‬ ؓ ک‬ا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت ابوبکر ؓ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر حضرت عثمان ؓ سے بھی زیادہ غصہ آیا، مگر میں چند راتیں ہی ٹھہرا تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4005]
حدیث حاشیہ:

خنیس بن حذافہ سہمی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔
پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
واپس ہوئے تو بدر میں شرکت کی، وہاں شدید زخمی ہوگئے۔
مدینہ طیبہ میں زخم کے شدت اختیار کرنے سے فوت ہو گئے۔
یہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ کےحقیقی بھائی تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے پچیس ماہ بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح کیا۔

حضرت عمر ؓ کو حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق زیادہ خفگی اس لیے ہوئی کہ حضرت عثمان ؓ نے پہلے اس معاملے پر غور و فکر کرنے کی مہلت طلب کی، پھر معذرت کردی جبکہ سیدنا ابو بکرؓہ نے سرے سے کوئی جواب ہی نہ دیا۔
اس کے علاوہ حضرت ابو بکر ؓ سے تعلق خاطر بھی زیادہ تھا، اس لیے ناراضی بھی زیادہ ہوئی جو وضاحت کرنے سے ختم ہو گئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4005   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.