الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
23. بَابُ : الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَءِ
23. باب: آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4025
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا وكيع , حدثنا الاعمش , عن شقيق , عن عبد الله , قال: كاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , وهو" يحكي نبيا من الانبياء ضربه قومه , وهو يمسح الدم عن وجهه , ويقول: رب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ" يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ , وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ , وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 54 (3477)، صحیح مسلم/الجہاد 36 (1792)، (تحفة الأشراف: 9260)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/456، 457، 380، 427، 432) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: خود آپ ﷺ نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري6929عبد الله بن مسعودرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   صحيح البخاري3477عبد الله بن مسعوداللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   صحيح مسلم4646عبد الله بن مسعودرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون
   سنن ابن ماجه4025عبد الله بن مسعودرب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6929  
´نوح علیہ السلام کی حقانیت`
«. . . حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، فَأَدْمَوْهُ، فَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ . . .»
. . . مجھ سے شقیق ابن سلمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا جیسے میں (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر (نوح علیہ السلام) کی حقانیت بیان کر رہے تھے ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے تھے اور یوں دعا کرتے جاتے «رب اغفر لقومي،‏‏‏‏ فإنهم لا يعلمون‏.‏» پروردگار میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6929]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6929 کا باب: «بَابٌ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے تین احادیث کا ذکر فرمایا، سیدنا انس بن مالک، امی عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے، ان تینوں احادیث سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر ان تینوں احادیث کے ذکر کے بعد صرف باب کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث درج فرمائی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا کوئی نام نہیں رکھا، بلکہ اسے خالی چھوڑ دیا، کیونکہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ بسا اوقات باب کسی مسئلے پر قائم فرما کر اس باب کے تحت صرف باب ہی قائم کرتے ہیں اور اسے کوئی نام نہیں دیتے، دراصل ان مقامات پر یہ بات واضح کرنا مقصود ہوتی ہے کہ یہ خالی باب ما قبل باب کا حصہ یا تتمہ ہے، لہٰذا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق باب سے کچھ اس طرح سے ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وجه ذكر هذا الحديث هنا من حيث إنه ملحق بالباب المترجم الذى فيه ترك النبى صلى الله عليه وسلم قتل ذاك القائل بقوله: السام عليك، وكان هذا من رفقه وصبره على اذي الكفار، والأنبياء عليهم السلام كانوا مأمورين بالصبر، قال الله تعالي: ﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾ [الأحقاف: 35] وفى هذا الحديث بيان صبر نبي من الأنبياء الذين أنفع غير منهمز.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 123/23]
ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ یہ باب اس باب سے ملحق ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو «السام عليك» کہنے والے نے کہا تھا، پس یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفق اور صبر تھا کافروں کے اذیت پہنچانے کے باوجود اور انبیاء علیہم السلام صبر کرنے پر مامور ہوتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: صبر کیجئے، جس طرح سے اول العزم رسولوں نے صبر کیا، یہ حدیث نبیوں میں کسی نبی کے صبر کا بیان ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ماقبل باب سے ہے، اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نبی نے تکالیفوں پر صبر کیا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ حدیث میں سب (برا کہنا) اور طعن موجود نہیں ہے، بلکہ وہ دعا تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کی دی جا رہی تھی۔
«انه لم يوجد ههنا معنى السب والطعن، بل هو دعاء عليه الموت، ولكن على هذا يشكل مطابقة الحديث بترجمة الباب كما لا يخفى.» [الابواب والتراجم 601/6]
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کی بات محل نظر ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی منشاء ترجمۃ الباب میں صریح الفاظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے پر نہیں ہے، بلکہ خفی انداز سے اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے، یا پھر سب کے الفاظ ادا کرے، لہٰذا اس باب کے اعتبار سے تحت الباب حدیث مکمل طور پر مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ مشغلہ تھا کہ زبان مروڑ کر غلط الفاظ کی ادائیگی کرتے تھے، دراصل یہود و نصاریٰ اپنے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موت کے الفاظ استعمال کر رہے تھے، نیت کی خرابی کی وجہ سے وہ موت کے الفاظ حقیقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سب اور طعن کے مانند تھے، لہٰذا یہی مقصود ہے ترجمۃ الباب اور حدیث کا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 258   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4025  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4025]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہدایت کی طرف بلانے والوں کو مشکلات آتی ہیں حتیٰ کہ انبیاء بھی بہت سی تکلیفیں برداشت کرتے رہے ہیں۔

(2)
ممکن ہے اس حدیث میں کسی نبی سے مراد خود نبی ﷺ ہوں اور طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ مقصود ہو۔
والله اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4025   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.