الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ} :
19. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بیشک تم میں سے جو لوگ اس دن واپس لوٹ گئے جس دن کہ دونوں جماعتیں آپس میں مقابل ہوئی تھیں تو یہ تو بس اس سبب سے ہوا کہ شیطان نے انہیں ان کے بعض کاموں کی وجہ سے بہکا دیا تھا اور بیشک اللہ انہیں معاف کر چکا ہے، یقیناً اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا حلم والا ہے“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: "Those of you who turned back on the day the two hosts met (i.e., the battle of Uhud) it was Shaitan (Satan) who caused them to backslide (run away from the battlefield) because of some (sins) they had earned. But Allah, indeed has forgiven them. Surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Forbearing.” (V.3:155)
حدیث نمبر: 4066
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبدان اخبرنا ابو حمزة عن عثمان بن موهب قال جاء رجل حج البيت فراى قوما جلوسا فقال من هؤلاء القعود قالوا هؤلاء قريش. قال من الشيخ قالوا ابن عمر. فاتاه فقال: إني سائلك عن شيء اتحدثني، قال انشدك بحرمة هذا البيت اتعلم ان عثمان بن عفان فر يوم احد قال نعم. قال فتعلمه تغيب عن بدر فلم يشهدها قال نعم. قال فتعلم انه تخلف عن بيعة الرضوان فلم يشهدها قال نعم. قال فكبر. قال ابن عمر تعال لاخبرك ولابين لك عما سالتني عنه، اما فراره يوم احد فاشهد ان الله عفا عنه، واما تغيبه عن بدر فإنه كان تحته بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت مريضة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «إن لك اجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه» . واما تغيبه عن بيعة الرضوان فإنه لو كان احد اعز ببطن مكة من عثمان بن عفان لبعثه مكانه، فبعث عثمان، وكان بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى مكة فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده اليمنى: «هذه يد عثمان» . فضرب بها على يده فقال: «هذه لعثمان» . اذهب بهذا الآن معك.حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلاَءِ الْقُعُودُ قَالُوا هَؤُلاَءِ قُرَيْشٌ. قَالَ مَنِ الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ. فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ أَتُحَدِّثُنِي، قَالَ أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَكَبَّرَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ لأُخْبِرَكَ وَلأُبَيِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ» . وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ، فَبَعَثَ عُثْمَانَ، وَكَانَ بَيْعَةُ الرُّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: «هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ» . فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ: «هَذِهِ لِعُثْمَانَ» . اذْهَبْ بِهَذَا الآنَ مَعَكَ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ ایک صاحب بیت اللہ کے حج کے لیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ پوچھا کہ ان میں شیخ کون ہیں؟ بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ صاحب ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ مجھ سے واقعات (صحیح) بیان کر دیجئیے۔ اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں صحیح ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ کو یہ بھی معلوم ہے عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے؟ کہا کہ ہاں یہ بھی ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان (صلح حدیبیہ) میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر ان صاحب نے (مارے خوشی کے) اللہ اکبر کہا لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا۔ یہاں آؤ میں تمہیں بتاؤں گا اور جو سوالات تم نے کئے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کر دوں گا۔ احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کر دی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ (بیعت لیتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے (بائیں) ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اب جا سکتے ہو۔ البتہ میری باتوں کو یاد رکھنا۔

Narrated `Uthman bin Mauhab: A man came to perform the Hajj to (Allah's) House. Seeing some people sitting, he said, "Who are these sitting people?" Somebody said, "They are the people of Quraish." He said, "Who is the old man?" They said, "Ibn `Umar." He went to him and said, "I want to ask you about something; will you tell me about it? I ask you with the respect due to the sanctity of this (Sacred) House, do you know that `Uthman bin `Affan fled on the day of Uhud?" Ibn `Umar said, "Yes." He said, "Do you know that he (i.e. `Uthman) was absent from the Badr (battle) and did not join it?" Ibn `Umar said, "Yes." He said, "Do you know that he failed to be present at the Ridwan Pledge of allegiance (i.e. Pledge of allegiance at Hudaibiya) and did not witness it?" Ibn `Umar replied, "Yes," He then said, "Allahu- Akbar!" Ibn `Umar said, "Come along; I will inform you and explain to you what you have asked. As for the flight (of `Uthman) on the day of Uhud, I testify that Allah forgave him. As regards his absence from the Badr (battle), he was married to the daughter of Allah's Apostle and she was ill, so the Prophet said to him, 'You will have such reward as a man who has fought the Badr battle will get, and will also have the same share of the booty.' As for his absence from the Ridwan Pledge of allegiance if there had been anybody more respected by the Meccans than `Uthman bin `Affan, the Prophet would surely have sent that man instead of `Uthman. So the Prophet sent him (i.e. `Uthman to Mecca) and the Ridwan Pledge of allegiance took place after `Uthman had gone to Mecca. The Prophet raised his right hand saying. 'This is the hand of `Uthman,' and clapped it over his other hand and said, "This is for `Uthman.'" Ibn `Umar then said (to the man), "Go now, after taking this information."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 395


   صحيح البخاري4066عبد الله بن عمرأتعلم أن عثمان بن عفان فر يوم أحد قال نعم قال فتعلمه تغيب عن بدر فلم يشهدها قال نعم قال فتعلم أنه تخلف عن بيعة الرضوان فلم يشهدها قال نعم قال فكبر قال ابن عمر تعال لأخبرك ولأبين لك عما سألتني عنه أما فراره يوم أحد فأشهد أن الله عفا عنه وأما تغيبه عن بدر ف
   صحيح البخاري3699عبد الله بن عمرتعلم أن عثمان فر يوم أحد قال نعم قال تعلم أنه تغيب عن بدر ولم يشهد قال نعم قال تعلم أنه تغيب عن بيعة الرضوان فلم يشهدها قال نعم قال الله أكبر قال ابن عمر تعال أبين لك أما فراره يوم أحد فأشهد أن الله عفا عنه وغفر له وأما تغيبه عن بدر فإنه كانت تحته بنت
   صحيح البخاري3130عبد الله بن عمرلك أجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه
   جامع الترمذي3706عبد الله بن عمرلك أجر رجل شهد بدرا وسهمه وأمره أن يخلف عليها وكانت عليلة أما تغيبه عن بيعة الرضوان فلو كان أحد أعز ببطن مكة من عثمان لبعثه رسول الله مكان عثمان بعث رسول الله عثمان إلى مكة وكانت بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى م
   سنن أبي داود2726عبد الله بن عمرضرب له رسول الله بسهم ولم يضرب لأحد غاب غيره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3706  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3706]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا،
اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا،
یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔

2؎: یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے،
ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

3؎: اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (سورة آل عمران:155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی،
یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے،
لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا،
اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2726  
´جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا: بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2726]
فوائد ومسائل:
بد ر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے خود انھیں حضرت رقیہ کی خدمت وتمارداری کے لئے پابند فرمایا تھا۔
اورپھر وہ اس بیماری میں وفات پاگئیں تھیں۔
اسی بنیاد پر انہیں غنیمت میں حصہ دیا گیا تھا۔
البتہ اس میں بعیت والی بات رواوی کا وہم ہے۔
کیونکہ نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بعیت حدیبیہ کے موقع پرلی تھی۔
یہاں راوی کو وہم ہوا ہے۔
اور اس نے اسے بدر کے واقعے میں بیان کر دیا ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جو شخص مجاہدین کی کوئی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے قتال میں شریک نہ ہوا اسے بھی غنیمت میں سے حصہ دیا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2726   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4066  
4066. حضرت عثمان بن موہب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک شخص بیت اللہ کا حج کرنے آیا تو کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا: یہ بیٹھے ہوئے لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ قریش ہیں۔ اس نے پھر پوچھا: یہ بوڑھا بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ حضرت ابن عمر ؓ ہیں۔ وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں کیا آپ مجھے جواب دیں گے؟ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اس گھر کی حرمت و عزت کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو علم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اُحد کی لڑائی سے بھاگ گئے تھے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں بھی موجود نہیں تھے بلکہ غیر حاضر تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر اس نے کہا: کیا آپ کے علم میں ہے کہ وہ بیعت رضوان سے بھی پیچھے رہ گئے تھے اور وہاں حاضر نہ تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ تب اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4066]
حدیث حاشیہ:
حضرت سیدنا عثمان ؓ پر یہ اعتراضات کرنے والا کوئی خارجی تھا جو واقعات کی ظاہری سطح کو بیان کر کے ان کی برائی کرنا چاہتا تھا مگر جسے اللہ عزت عطا کرے اس کی برائی کرنے والا خود براہے (رضي اللہ عنه وأرضاہ)
غزوئہ احد کے موقع پر عام مسلمانوں میں کفار کے اچانک حملہ کی وجہ سے گھبرہٹ پھیل گئی تھی۔
حضور اکرم ﷺ اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور دو ایک صحابہ کے ساتھ کفار کے تمام حملوں کا انتہائی پا مردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد آنحضرتﷺ نے صحابہ کو آواز دی اور پھر تمام صحابہ جمع ہوگئے۔
اللہ تعالی نے صحابہ کی اس غلطی کو معاف کردیا اور اپنی معافی کاخود قرآن مجید میں اعلان کیا۔
اکثر صحابہ منتشر ہو گئے تھے اور انہیں میں عثمان ؓ بھی تھے۔
مسلمانوں کو اس غزوہ میں اگرچہ نقصان بہت اٹھانا پڑا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں نے غزوئہ احد میں شکست کھائی۔
کیونکہ نہ مسلمانوں نے ہتھیار ڈالے اور نہ آنحضرت ﷺ نے میدان جنگ چھوڑا تھا۔
فوج یعنی صحابہ ؓ میں اگر تھوڑی دیر کے لیے انتشار پیدا ہوگیا تھا لیکن پھر یہ سب حضرات بھی جلد ہی میدان میں آگئے۔
یہ بھی نہیں ہوا کہ صحابہ ؓ نے میدان چھوڑدیا ہو بلکہ غیر متوقع صورت حال سے گھبراہٹ اور صفوں میں انتشار پیدا ہو گیا تھا۔
جب اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں پکارا تو وہ فوراً سنبھل گئے اور پھر آکر آپ کے چاروں طرف جمع ہوگئے اور آخر میں کفار کو فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
عظیم نقصانات کے باوجود آخری فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہوئی۔
احادیث بالا میں یہی مضامین بیان میں آرہے ہیں۔
حضرت عثمان ؓ کے متعلق سوالات کرنے والا مخالفین میں سے تھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے سوالات کو تفصیل کے ساتھ حل فرمادیا۔
مگر جن لوگوں کو کسی سے نا حق بغض ہو تاہے وہ کسی بھی طور مطمئن نہیں ہو سکتے۔
آج تک ایسے کج فہم لوگ موجود ہیں جو حضرت عثمان ؓ پر طعن کرنا ہی اپنے لیے دلیل فضیلت بنائے ہوئے ہیں صحابہ کرام ؓ خصوصاً ًًخلفائے راشدین ہمارے ہر احترام کے مستحق ہیں۔
ان کی بشری لغزشیں سب اللہ کے حوالہ ہیں۔
اللہ تعالی یقینا ان کو معاف کرچکا ہے۔
رضي اللہ عنهم ولعن اللہ من عادھم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4066   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4066  
4066. حضرت عثمان بن موہب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک شخص بیت اللہ کا حج کرنے آیا تو کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا: یہ بیٹھے ہوئے لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ قریش ہیں۔ اس نے پھر پوچھا: یہ بوڑھا بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ حضرت ابن عمر ؓ ہیں۔ وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں کیا آپ مجھے جواب دیں گے؟ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اس گھر کی حرمت و عزت کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو علم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اُحد کی لڑائی سے بھاگ گئے تھے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں بھی موجود نہیں تھے بلکہ غیر حاضر تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر اس نے کہا: کیا آپ کے علم میں ہے کہ وہ بیعت رضوان سے بھی پیچھے رہ گئے تھے اور وہاں حاضر نہ تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ تب اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4066]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے حضرت عثمان ؓ کے متعلق تین سوالات کیے تھے میں اس کے نام سے مطلع نہیں ہو سکا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اہل مصر سے تھا ممکن ہے کہ وہ علاء بن عرارہو۔
(فتح الباري: 75/7)
پھر دوسرے مقام پر جزم ووثوق سے لکھا ہے کہ اس کا نام حکیم تھا۔
لیکن انھوں نے اس سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا:
کہ وہ علاء بن عرار ہی تھا۔
(فتح الباري: 454/7)
بہر حال وہ حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا جو واقعات کی ظاہری سطح کو بیان کر کے حضرت عثمان ؓ کی برائی کرنا چاہتا تھا2۔
دراصل غزوہ احد کے موقع پر عام مسلمانوں میں کفار کے اچانک حملے کی وجہ سے گھبراہٹ پھیل گئی تھی، البتہ رسول اللہ ﷺ اپنے چند ایک صحابہ سمیت کفار کے تمام حملوں کا انتہائی پامردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے تھوڑی دیر کے بعد اپنے صحابہ کرام ؓ کو آواز دی تمام صحابہ کرام جمع ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کی اس غلطی کو معاف کردیا اور اس معافی کا اعلان اپنی کتاب میں کردیا جیسا کہ عنوان میں ذکر کردہ آیت سے واضح ہےلیکن خارجی حضرات نے اللہ تعالیٰ کی اس معافی سے اتفاق نہیں کیا۔
وہ بدستور حضرت عثمان ؓ پر"فرار"کا الزام لگاتے رہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں معاف کردیا ہے لیکن تم لوگ انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4515)

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کا شافی جواب دیا تاکہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق لوگوں کے فاسد اعتقاد کا ازالہ ہو جائے اور حضرت عثمان کے متعلق بدگمانی کو نکال دیا جائے مگر جن لوگوں کو کسی سے ناحق بغض ہوتا ہے وہ کسی طور پر مطمئن نہیں ہو سکتے۔
آج بھی کچھ ایسے کم فہم لوگ موجود ہیں۔
جو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹ رہے ہیں اور صحابہ کرام ؓ پر طعن کرنے میں بڑا فخر سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزشیں معاف کر دینے کا واضح طور پر اعلان کردیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہےبے شک اللہ تعالیٰ نے تمھیں معاف کردیا ہے کیونکہ وہ اہل ایمان کے لیے بڑے فضل والا ہے۔
(آل عمران: 152/3)
اللہ تعالیٰ نے معافی کے اس اعلان کے بعد صحابہ کرام ؓ کے متعلق خبث باطن رکھنے اور زبان درازی کی گنجائش ختم کردی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4066   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.