الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر
صحيفه همام بن منبه
متفرق
विभिन्न हदीसें
42. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن پر رعب عطا ہوا تھا
४२. “ रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का दुश्मन पर रौअब ”
حدیث نمبر: 42
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نصرت بالرعب، واوتيت جوامع الكلم"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بذریعہ رعب میری نصرت کی گئی ہے اور مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “रोब के माध्यम से मेरी सहायता की गई है और मुझे पूरे शब्द दिए गए हैं।”

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب قول النبى صلى الله عليه وسلم نصرت بالرعب مسيرة شهر، رقم: 2977 - صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلوٰة، رقم: 523/8، وحدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه سلم.... - مسند أحمد: 50/16.»

   صحيح البخاري7013عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   صحيح البخاري2977عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   صحيح البخاري7273عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب وبينا أنا نائم رأيتني أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   صحيح البخاري6998عبد الرحمن بن صخرأعطيت مفاتيح الكلم نصرت بالرعب بينما أنا نائم البارحة إذ أتيت بمفاتيح خزائن الأرض حتى وضعت في يدي
   صحيح مسلم1172عبد الرحمن بن صخرنصرت بالرعب أوتيت جوامع الكلم
   صحيح مسلم1171عبد الرحمن بن صخرنصرت بالرعب على العدو أوتيت جوامع الكلم بينما أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   صحيح مسلم1168عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت بين يدي
   صحيح مسلم1167عبد الرحمن بن صخرفضلت على الأنبياء بست أعطيت جوامع الكلم نصرت بالرعب أحلت لي الغنائم جعلت لي الأرض طهورا ومسجدا أرسلت إلى الخلق كافة ختم بي النبيون
   جامع الترمذي1553عبد الرحمن بن صخرفضلت على الأنبياء بست أعطيت جوامع الكلم نصرت بالرعب أحلت لي الغنائم جعلت لي الأرض مسجدا وطهورا أرسلت إلى الخلق كافة ختم بي النبيون
   سنن النسائى الصغرى3089عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   سنن النسائى الصغرى3091عبد الرحمن بن صخربعثت بجوامع الكلم نصرت بالرعب بينا أنا نائم أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي
   سنن ابن ماجه567عبد الرحمن بن صخرجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا
   صحيفة همام بن منبه42عبد الرحمن بن صخرنصرت بالرعب أوتيت جوامع الكلم
   مسندالحميدي975عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   42  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن پر رعب عطا ہوا تھا`
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بذریعہ رعب میری نصرت کی گئی ہے اور مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 42]
شرح الحديث:
رعب سے میری نصرت کی گئی:
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین و دشمنوں کے دلوں پر ان کی دہشت و ہیبت طاری کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہی کہ "مَسِیْرَةٍ شَھْرٍ" مطلب یہ ہے کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے مابین ایک مہینہ کی مسافت ہوتی، تو بھی ان کے دلوں پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا رعب و دبدبہ طاری رہتا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله علیہ "فتح الباری" میں لکھتے ہیں "مَسِیْرَةِ شَھْرٍ" کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ ایک مہینہ کی مدت میں نہ اس سے کم مقدار، نہ ہی زیادہ مدت میں کسی اور کی نصرت بذریعہ رعب کی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا عمرو بن شعیب رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ:
«وَنُصِرْتُ عَلَى الْعَدُوِّ بِالرُّعْبِ وَلَوْ كَانَ بَيْنِىْ وَبَيْنَهُمْ مَسِيرَةُ شَهْرٍ»
"رعب کے ذریعہ سے مجھے اپنے دشمنوں پر نصرت دی گئی ہے، اگرچہ میرے اور ان کے مابین ایک ماہ کا فاصلہ ہو۔ "
اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم سے آشکارا ہوتا ہے کہ رعب سے متصف نصرت کا اختصاص جو ہے وہ مطلقاً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہستی مبارک کے ساتھ مخصوص ہے، اس اختصاص پر خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی شہادت موجود ہے۔ جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
«أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي»
"مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئ، جو مجھ سے قبل کسی نبی کو عطا نہ کی گئیں۔ انہی پانچ میں سے ایک چیز دشمن پر رعب ہے۔ "
مزید حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: ایک ماہ کی مسافت کو غایت اس لیے قرار دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین کی مسافت ایک ماہ کی مدت پر محمول تھی۔ اور اس خاصیت کا اطلاق مطلق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر ہوتا ہے حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم لشکر کے بغیر بھی ہوں، تو اس خاصیت کا اطلاق ان پر ہوگا۔ دیکھئے! [فتح الباري 437/1]
آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہیبت و عظمت کا اندازہ فرمائیں کہ جب کفار مکہ نے معاہدہ حدیبیہ کی مخالفت کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنوبکر کی مدد کی اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حلیف بنو خزاعہ کی مدد کا اعلان کیا تو ابو سفیان نے اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوکر مدینہ کا سفر کیا تاکہ معاہدے کی تجدید ہو سکے۔ اس موقع پر ابو سفیان آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ ابو سفیان آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر اور علی رضی الله عنہم اجمعین کے پاس بھی گئے کہ میری بات سنو، اور میری گفتگو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کرواؤ، مگر سب نے کہا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہم کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں رکھتے، بالآخر ابو سفیان کو مایوس اور ناکام واپس آنا پڑا، پھر یہی شروعات فتح مکہ کا باعث بنیں۔ [البداية والنهاية: 330/4 - تاريخ ابن جرير: 48/2 - سيرة ابن هشام: ص 541]

اور مجھے جامعیت بھرے کلمات سے نوازا گیا ہے:
اسی طرح ایک روایت میں «بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلَمِ» کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا ہے۔ علامہ الھروی رحمة الله علیه فرماتے ہیں:
جامع کلمات سے مراد الله تعالیٰ کی کتاب قرآن مقدس ہے۔ جسے الله تعالیٰ نے قلیل الفاظ اور معانی کثیر کے مرقع سے مرکب کیا ہے۔ بعینہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات میں بھی الفاظ کی قلت اور معانی کی کثرت پائی جاتی ہے۔ [شرح مسلم، للنووي: 156/2]
قاضی عیاض رحمة الله علیه "الشفاء" میں فرماتے ہیں:
زبان کی فصاحت اور قول کی بلاغت کے اعتبار سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سب سے فائق ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کلام انتہائی شستہ ورواں، موقع و محل پر کامل منطبق، نہایت مختصر و بامقصد، بہت نکھرا ہوا اور اجلا، معانی کی صحت پر محیط اور تکلف سے یکسر خالی تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں جامعیت بھرے کلمات سے نوازا گیا تھا، انتہائے لطف یہ کہ ان کلمات کی خصوصیت یہ تھی کہ ان سے حکمتیں پھوٹ پھوٹ کر باہر آتی تھیں۔ ویسے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کلام کا ایک ایک لفظ جامعیت اور وضاحت سے پُر ہے مگر ان کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے بعض لؤلؤ و مرجان بھی ہیں جنہیں خاص جوامع الکلم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

جوامع الکلم:
"ان میں سے چند ایک ذیل کی سطور میں درج کیے جاتے ہیں۔
«اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَب» "میں فصیحانِ عرب میں سے ہوں۔ "
«وَلَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ» "صاحبِ ایمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ "
دیکھئے! [الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ: 1/ 50، 57]
➌ اور اس طرح یہ فرمان کہ «اَلسَعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهٰ» "سعادت مند وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔ " [نسيم الرياض: 1/ 477-533]
«اَصْدَقُ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ» "الله کے کلام سے سچا کوئی کلام نہیں۔ " [الشريعة للآجري: 46 - الدر المنثور: 147/3]
«أَفْضَلُ الْمَوْتِ الْقَتْلِ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ» "سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے۔ " [جمع الجوامع، رقم: 3831]
«أَفْضَلُ الْعَمَلِ أَدْوَمُهُ» "سب سے اچھے کام اولوالعزمی کے کام ہیں۔ " [الكاف الشاف فى تخريج احاديث الكشاف، رقم: 177]
«اَلْخَمْرُ اُمُّ الْخَبَائِثِ» "شراب گناہوں کی ماں ہے۔ " [سلسلة الصحيحة، رقم: 1854]
«سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ» "مومن کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ " [صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 48]
«اَلْنِّيَاحَةُ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ» "نوحہ کرنا جاہلیت کی یادگار ہے۔ " [سنن ابن ماجه، كتاب الجنائز، رقم: 1581، 1582]
«مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَة، أَخِيْهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ» "جو لوگوں کے عیوب کی تشہیر کرتا ہے الله اس کے عیوب فاش کر دیتا ہے۔ " [الدر المنثور: 93/6]
ان چند فرامین سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فصاحت، بلاغت اور سلاست کلام کا پہلو نمایاں اور واضح ہے۔ اس قسم کی احادیث پڑھنے اور سننے سے ایمان کی تازگی اور شادابی میں اضافہ ہوتا ہے۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 42   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث567  
´تیمم کے مشروع ہونے کا سبب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 567]
اردو حاشہ:
(1)
  زمین میں مسجد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں مسجد سے باہر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، سوائے ممنوعہ مقامات یا ناپاک جگہ کے مثلاً عین راستے پر، قبرستان میں اور بعض دیگر مقامات جن کی تفصیل حدیث: 746، 745، اور 747 میں مذکور ہے۔
لیکن فرض نمازمیں کسی عذر کے بغیر جاعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں۔

(2)
زمین پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ عذر کے موقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 567   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.