الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
وصیت کے احکام و مسائل
The Book of Wills
1. باب وَصيَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ
1. باب: وصیت کے لکھے ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4204
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو خيثمة زهير بن حرب ، ومحمد بن المثنى العنزي ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا يحيى وهو ابن سعيد القطان ، عن عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ما حق امرئ مسلم له شيء يريد ان يوصي فيه يبيت ليلتين، إلا ووصيته مكتوبة عنده "،حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، واللفظ لابن المثنى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "،
یحییٰ بن سعید قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کو، جس کے پاس کچھ ہو اور وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو، اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں (بھی) گزارے مگر اس طرح کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے لائق چیز ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے درست نہیں ہے کہ وصیت لکھے بغیر دو راتیں بسر کرے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1627

   صحيح البخاري2738عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   صحيح مسلم4207عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ثلاث ليال إلا ووصيته عنده مكتوبة
   صحيح مسلم4204عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يريد أن يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   جامع الترمذي974عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله شيء يوصي فيه إلا ووصيته مكتوبة عنده
   جامع الترمذي2118عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله ما يوصي فيه إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن أبي داود2862عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن ابن ماجه2702عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله شيء يوصي به إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن ابن ماجه2699عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم أن يبيت ليلتين وله شيء يوصي فيه إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن النسائى الصغرى3645عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصى فيه أن يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن النسائى الصغرى3646عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصى فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   سنن النسائى الصغرى3648عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم تمر عليه ثلاث ليال إلا وعنده وصيته
   سنن النسائى الصغرى3649عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصى فيه فيبيت ثلاث ليال إلا ووصيته عنده مكتوبة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم388عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبة
   بلوغ المرام818عبد الله بن عمر ما حق امرىء مسلم له شيء يريد أن يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده
   مسندالحميدي714عبد الله بن عمرما حق امرئ مسلم له مال يوصى فيه، ثم يأتي عليه ليلتان إلا ووصيته مكتوبة عنده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 388  
´وصیت کا وجوب منسوخ ہے`
«. . . 249- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے (یا لکھوانے) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 388]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2738، ومسلم 1627، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ اس حدیث سے وصیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسری صحیح حدیث نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فلا وصیة لوارث» پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔ [سنن الترمذي: 2120 وسنده حسن وقال الترمذي: هذا حديث حسن ورواه ابوداود: 2870 وابن ماجه: 2713]
➋ جو شخص وارثوں کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں ثلث (ایک تہائی) میں سے وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لکھنے میں جلدی کرے۔ اس جلدی کے مستحب ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/292]
➌ قرآن مجید میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کا حکم ہے جسے «لا وصية لوارث» والی حدیث نے منسوخ کردیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حدیث کے ساتھ نسخِ قرآن جائز ہے۔
➍ اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 249   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2699  
´وصیت کی ترغیب۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2699]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وصیت ایسی چیز ہے کہ ا س کا فائدہ اور ثواب مرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، جب وصیت پر عمل کیا جاتا ہے۔

(2)
انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، ممکن ہے بندے کو اس حال میں موت آئے کہ اسے وصیت کرنے کا موقع نہ ملے، اس لیے بہتر ہے کہ وصیت ہر وقت تیار رکھی جائے۔

(3)
پہلے سے وصیت لکھ رکھنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان اس میں حسب خواہش تبدیلی کرسکتا ہے۔

(4)
قرض اور امانت وغیرہ کی تفصیل ہمیشہ لکھ کر رکھنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2699   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 818  
´وصیتوں کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کو وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر دو راتیں بھی اسی حالت میں گزار دے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 818»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب الوصايا....، حديث:2738، ومسلم، الوصية، حديث:1627.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وصیت ہر وقت تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
2.آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا ہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی تھا لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ وصیت ختم ہوگئی‘ یعنی جن کے حصے قرآن میں متعین و مقرر کر دیے گئے ہیں ان کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں‘ البتہ میراث کے علاوہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے‘ مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کی میراث ختم ہے مگر اس کی تعلیم و تربیت‘ نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 818   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2118  
´وصیت کی ترغیب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2118]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا،
لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہوگئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہوگیا،
البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جا سکتی ہے،
اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2118   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2862  
´وصیت کرنے کی تاکید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2862]
فوائد ومسائل:
حدیث میں (يبيت ليلتين)سے مراد یہ ہے کہ اسے وصیت لکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
تحدید مراد نہیں ہے۔
کیوکہ مسند ابی عوانۃ اور السنن کبریٰ للبیقی میں (ليلة او ليلتين)ایک ر ات یا دو راتوں کا زکر ہے۔
صحیح مسلم اور سنن نسائی میں (ثلاث لیال) تین راتوں کازکر بھی ملتاہے۔
بہرحال انسان کو اپنی موت سے کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔
نہ معلوم کس وقت بلاوا آجائے۔
لہذا اگر کوئی قرض ہو یا امانت یا کوئی اور اہم معاملہ تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاں لکھ رکھے۔
تاکہ وارثوں کو اس کی تنفیذ میں آسانی رہے۔
اورحقوق کے معاملے میں مرنے والے پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔
اس صورت میں یہ امرواجب ہے۔
لیکن اگرکوئی حق واجب نہ ہو تو وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔
جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہاہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2862   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4204  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ما حق امري،
يعني لا يحق له،
اس کے لیے درست اور صحیح رویہ نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس وصیت لکھ کر نہ رکھے۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی کے پاس وصیت کے قابل چیز موجود ہو،
اس پر قرضہ ہو،
کسی کی امانت ہو،
یا کوئی اور لازم چیز ہو،
جس کو اب وہ خود ادا نہیں کر سکتا،
تو اس پر اس صورت میں وصیت کرنا لازم ہے،
مثلا اس کے ذمہ روزے رہتے ہیں،
حج کرنا لازم ہے،
لیکن کر نہیں سکتا ہے،
کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کرنے کی ضرورت ہے،
مثلا اس کے پوتے،
پوتیاں ہیں،
جو اپنے چچاؤں کی موجودگی میں وارث نہیں بن سکتے،
ان ضروری صورتوں کے بغیر جمہور کے نزدیک جس میں ائمہ اربعہ داخل ہیں،
وصیت ضروری نہیں ہے،
لیکن امام داؤد اور بعض تابعین کے نزدیک،
غیر وارث،
رشتہ داروں کے حق میں ہر صورت میں وصیت کرنا فرض ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4204   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.