الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
The Book of Purification and its Sunnah
48. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقَصْدِ فِي الْوَضُوءِ وَكَرَاهِيَةِ التَّعَدِّي فِيهِ
48. باب: وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 422
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا خالي يعلى ، عن سفيان ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن الوضوء؟ فاراه ثلاثا ثلاثا، ثم قال:" هذا الوضوء فمن زاد على هذا فقد اساء، او تعدى، او ظلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ الْوُضُوءِ؟ فَأَرَاهُ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا الْوُضُوءُ فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا فَقَدْ أَسَاءَ، أَوْ تَعَدَّى، أَوْ ظَلَمَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا، اور آپ سے وضو کے سلسلے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار وضو کر کے اسے دکھایا، پھر فرمایا: یہی (مکمل) وضو ہے، لہٰذا جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، یا حد سے تجاوز کیا، یا ظلم کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطہارة 51 (135)، سنن النسائی/الطہارة 104 (140)، (تحفة الأشراف: 8809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/180) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from 'Amr bin Shu'aib from his father, from his grandfather, that: A Bedouin came to the Prophet and asked him about ablution. He showed him how to perform it washing each part of the body three times. Then he said: 'This is the ablution, and whoever does more than this, has done evil, transgressed the limits and wronged himself.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن أبي داود135عبد الله بن عمرودعا بماء في إناء فغسل كفيه ثلاثا ثم غسل وجهه ثلاثا ثم غسل ذراعيه ثلاثا ثم مسح برأسه فأدخل إصبعيه السباحتين في أذنيه ومسح بإبهاميه على ظاهر أذنيه وبالسباحتين باطن أذنيه ثم غسل رجليه ثلاثا ثلاثا
   سنن ابن ماجه422عبد الله بن عمروهذا الوضوء فمن زاد على هذا فقد أساء أو تعدى أو ظلم
   سنن النسائى الصغرى140عبد الله بن عمروأراه الوضوء ثلاثا ثلاثا ثم قال هكذا الوضوء فمن زاد على هذا فقد أساء وتعدى وظلم
   سنن النسائى الصغرى142عبد الله بن عمروأسبغوا الوضوء
   بلوغ المرام33عبد الله بن عمرومسح براسه وادخل إصبعيه السباحتين في اذنيه،‏‏‏‏ ومسح بإبهاميه علي ظاهر اذنيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 33  
´کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح`
«. . . ثم مسح براسه وادخل إصبعيه السباحتين في اذنيه،‏‏‏‏ ومسح بإبهاميه علي ظاهر اذنيه . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے ہاتھوں کی دونوں شہادت والی انگلیوں کو کانوں میں داخل کیا اور انگوٹھوں سے کانوں کے باہر کا مسح کیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 33]

لغوی تشریح:
«اَلسَّبَّاحَتَيْنِ» «إِصْبَعَيْهِ» کی صفت واقع ہو رہا ہے۔ اس کا واحد «اَلسَّبَّاحَة» ہے۔ «اَلسَّبَّاحَة» اس انگلی کو کہتے ہیں جو انگوٹھے اور انگشت وسطی کے درمیان ہے۔ چونکہ اس سے تسبیح کے وقت اشارہ کیا جاتا ہے اس بنا پر اسے «سَبَّاحَة» کہتے ہیں۔ «سَبَّاحَتَيٰنِ» اس کا تثنیہ ہے، یعنی دونوں ہاتھوں کی انگشتہائے شہادت۔
«اَلْإِبْهَامِ» پانچوں انگلیوں میں سب سے پہلی، سب سے زیادہ فائدہ بخش اور «رُسْغ» (گٹ) کے زیادہ قریب، یعنی انگوٹھا۔
«ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ» سے مراد دونوں کانوں کا بالائی حصہ ہے۔ یعنی کانوں کی پشت اور بیرونی جانب۔

فوائد ومسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح فرمایا ہے۔
➋ ظاہر سے مراد کان کا وہ حصہ ہے جو سر کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور باطن وہ ہے جو منہ کی جانب ہوتا ہے، یعنی اندرونی جانب۔
➌ امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے کانوں کے ظاہر اور باطن پر مسح کی حدیث بیان کر کے کہا ہے کہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ER آپ سہمی قریشی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب کعب بن لؤی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اپنے والد سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنے والد محترم سے صرف تیرہ برس چھوٹے تھے۔ بڑے پائے کے عالم فاضل، حدیث کے حافظ اور عابد تھے۔ بکثرت احادیث نبویہ ان سے مروی ہیں۔ یہ ارشادات نبویہ کو قلم بند کر لیا کرتے تھے۔ 63 یا 70 ہجری میں وفات پائی۔ تدفین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ مکہ مکرمہ میں، طائف میں یا مصر میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 135  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا`
«. . . عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الطُّهُورُ؟" فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 135]
فوائد و مسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز تعلیم و تربیت کا ایک پہلو عملی مظاہرہ بھی ہوتا تھا اور اس طرح طالب علم کو جس قدر فائدہ ہوتا ہے، محض زبانی تلقین سے نہیں ہوتا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ صرف ایک جملہ «أونقص» جس نے کم کیا شاذ ہے۔ (شیخ البانی رحمہ اللہ) یعنی ایک راوی کا وہم ہے، کیونکہ اعضائے وضو کو ایک ایک، دو دو مرتبہ بھی دھونا جائز ہے۔ تاہم یہاں اگر «نقص» کا مفہوم یہ لے لیا جائے کہ جو شخص اعضائے وضو کو دھونے میں پورا نہ دھوئے یا ویسے ہی چھوڑ دے تو اس نے ظلم کیا۔ تو اس طرح اس کا مفہوم دوسری روایات کے مطابق ہی رہتا ہے۔ [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 135   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 140  
´وضو میں حد سے بڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین بار اعضاء وضو دھو کر کے دکھائے، پھر فرمایا: اسی طرح وضو کرنا ہے، جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا، وہ حد سے آگے بڑھا اور اس نے ظلم کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 140]
140۔ اردو حاشیہ: تین دفعہ دھونے سے میل کچیل دور ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اچھی طرح دھوئے، لہٰذا اس سے زائد دھونے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا بلکہ پانی ضائع ہو گا۔ اسراف کی عادت پڑے گی اور طبیعت وہمی ہو جائے گی، البتہ اگر اعضائے وضو میں سے کوئی عضو زیادہ غبار آلود ہو یا نجاست اور غلاظت لگ گئی ہو تو چاہیے کہ وضو سے قبل ہی اسے زائل کر لیا جائے اور اچھی طرح دھو لیا جائے تاکہ وضو شروع کرنے کے بعد انسان کسی طرح بھی مذکورہ وعید کا مرتکب نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 142  
´کامل وضو کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامل وضو کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 142]
142۔ اردو حاشیہ: اسباغ سے مراد یہ ہے کہ اعضاء کو اچھی طرح اہتمام کے ساتھ مکمل طور پر دھویا جائے تاکہ کوئی عضو یا اس کا کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے اور بعض اوقات مشقت کے باوجود اور نا چاہتے ہوئے بھی اسباع الوضوء کا اہتمام کرنا فضیلت کا عمل ہے جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے؟ صحابہ  نے عرض کیا: اللہ کے رسول کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: «إسباغ الوضوء علی المکارہ» مشقت کے باوجود اور ناچاہتے ہوئے بھی مکمل اور پورا وضو کرنا۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 251]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 142   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث422  
´وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا، اور آپ سے وضو کے سلسلے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار وضو کر کے اسے دکھایا، پھر فرمایا: یہی (مکمل) وضو ہے، لہٰذا جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، یا حد سے تجاوز کیا، یا ظلم کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 422]
اردو حاشہ:
(1)
۔
تعلیم کا ایک مؤثر طریقہ یہ بھی ہے کہ کام کرکے دکھایا جائے۔
اساتذہ کو چاہیے کہ عملی مسائل کی تفہیم میں اس طریقے سے فائدہ اٹھائیں۔

(2) (هٰذَا الْوُضُوء)
یہ ہوتا ہے وضو، اس کا مطلب یہ ہے کہ وضو کا صحیح طریقہ یہ ہے۔

(3)
اضافہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ تین بار سے زیادہ کسی عضو کو دھوئے۔

(4)
  اضافے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پانی کے استعمال میں فضول خرچی کرے لہذا اس سے بھی بچنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 422   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.