الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
201. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ
201. باب: فجر سے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں تو انہیں نماز فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 422
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقيمت الصلاة فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني اصلي، فقال: " مهلا يا قيس اصلاتان معا "، قلت: يا رسول الله إني لم اكن ركعت ركعتي الفجر، قال: " فلا إذا " قال ابو عيسى: حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد، وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء بن ابي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث، وإنما يروى هذا الحديث مرسلا، وقد قال قوم من اهل مكة بهذا الحديث: لم يروا باسا ان يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل ان تطلع الشمس. قال ابو عيسى: وسعد بن سعيد هو اخ ويحيى بن سعيد الانصاري، قال: وقيس هو جد يحيى بن سعيد الانصاري ويقال: هو قيس بن عمر، ويقال: هو قيس بن قهد، وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل، محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس، وروى بعضهم هذا الحديث، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج فراى قيسا، وهذا اصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: " مَهْلًا يَا قَيْسُ أَصَلَاتَانِ مَعًا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، قَالَ: " فَلَا إِذًا " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، وقَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: سَمِعَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، مِنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ: لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: وَقَيْسٌ هُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَيُقَالُ: هُوَ قَيْسُ بْنُ عَمْرٍ، وَيُقَالُ: هوَ قَيْسُ بْنُ قَهْدٍ، وَإِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ قَيْسٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَرَأَى قَيْسًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ.
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،
۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے،
۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے،
۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،
۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحییٰ بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہا جاتا ہے اور قیس بن قہد بھی،
۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اور سعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو قیس کو دیکھا، اور یہ عبدالعزیز کی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 295 (1267)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 104 (1154)، (تحفة الأشراف: 11102)، مسند احمد (5/447) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ: فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔
۲؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے، نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1151)

   جامع الترمذي422قيس بن عمروأصلاتان معا قلت يا رسول الله إني لم أكن ركعت ركعتي الفجر قال فلا إذا
   سنن أبي داود1267قيس بن عمروصلاة الصبح ركعتان فقال الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن فسكت رسول الله
   سنن ابن ماجه1154قيس بن عمروأصلاة الصبح مرتين فقال له الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما قال فسكت النبي
   مسندالحميدي892قيس بن عمروما هاتان الركعتان يا قيس؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1154  
´فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھی ہو تو اس سے کب پڑھے؟`
قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز فجر کے بعد دو رکعت پڑھ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا نماز فجر دو بار پڑھ رہے ہو؟، اس شخص نے کہا: میں نماز فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکا تھا، تو میں نے اب ان کو پڑھ لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز پڑھنے والے یہ صحابی خود حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
اپنا نام لیے بغیر واقعہ بیان فرمایا ہے۔
جامع ترمذی کی روایت میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ یہ خود ان کا واقعہ ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء فیمن تفوته الرکعتان قبل الفجر یصلیھا بعد صلاۃ الصبح، حدیث: 422)

(2)
جو کام بظاہرغلط ہو۔
اس پر ناراضی کا اظہار کرنے سے پہلے وضاحت طلب کرلینا مناسب ہے۔
تاکہ اگر وضاحت قابل قبول ہوتو فہمائش کی ضرورت پیش نہ آئے۔

(3)
رسول اللہﷺ کا خاموش ہوجانا اس کام کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
ایسے امور جو رسول اللہ ﷺ کے علم میں آئے۔
اور آپ نے ان سے منع نہیں فرمایا۔
سب جائز ہیں۔
انھیں ''تقریری سنت''کہا جاتاہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1154   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 422  
´فجر سے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں تو انہیں نماز فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔`
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 422]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ:
فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں،
تو یہی سمجھا جائیگا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔

2؎:
یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نمازِ فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے،
اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں،
کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے،
جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے،
نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 422   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1267  
´جس کی فجر کی سنتیں چھوٹ گئی ہوں تو ان کو کب پڑھے؟`
قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہو جانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر دو ہی رکعت ہے، اس شخص نے جواب دیا: میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1267]
1267۔ اردو حاشیہ:
➊ سنتیں رہ جائیں تو بعد میں پڑھنا افضل ہے بالخصوص فجر کی سنتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔
➋ فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد ادا کر نا جائز ہے اور وہ حدیث جس میں ہے کہ نماز فجر کے بعد نماز نہیں۔ اس سے مراد عام نوافل ہیں نہ کہ اس قسم کی نماز جو کسی سبب سے پڑھی جا رہی ہو۔
➌ اگر یقین ہو کہ طلوع شمس کے انتظار میں یہ فوت نہیں ہو جائیں گی تو مؤخر کر لے۔ اسی طرح اس حدیث پر عمل ہو جائے گا کہ نماز فجر کے بعد نماز نہیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو دیکھ یا سن کر خاموش رہنا اس کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال بالکل صحیح ہے کہ جو شخص فجر کی دو سنتیں فجر کی نماز سے پہلے نہیں پڑھ سکا وہ فرضوں کے بعد پڑھ سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1267   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.