الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
38. بَابُ: {أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ} إِلَى: {قَرِيبٌ} :
38. باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، انہیں تنگی اور سختی پیش آئی“ آخر آیت «قريب» تک۔
(38) Chapter. “Or think you that you will enter Paradise without such (trials) as came to those who passed away before you?” (V.2:214)
حدیث نمبر: 4524
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى , اخبرنا هشام , عن ابن جريج , قال: سمعت ابن ابي مليكة، يقول: قال ابن عباس رضي الله عنهما: حتى إذا استياس الرسل وظنوا انهم قد كذبوا سورة يوسف آية 110 خفيفة ذهب بها هناك وتلا حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله الا إن نصر الله قريب سورة البقرة آية 214 فلقيت عروة بن الزبير , فذكرت له ذلك .(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 خَفِيفَةً ذَهَبَ بِهَا هُنَاكَ وَتَلَا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ سورة البقرة آية 214 فَلَقِيتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ , فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ .
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ یوسف کی آیت «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا» (میں «كذبوا» کو ذال کی) تخفیف کے ساتھ قرآت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے «حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله ألا إن نصر الله قريب» پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا ذکر کیا۔

Narrated Ibn Abu Mulaika: Ibn `Abbas recited: "(Respite will be granted) until when the Apostles gave up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people). There came to them Our Help ...." (12.110) reading Kudhibu without doubling the sound 'dh', and that was what he understood of the Verse. Then he went on reciting: "..even the Apostle and those who believed along with him said: When (will come) Allah's Help? Yes, verily, Allah's Help is near." (2.214) Then I met `Urwa bin Az-Zubair and I mentioned that to him. He said, "Aisha said, 'Allah forbid! By Allah, Allah never promised His Apostle anything but he knew that it would certainly happen before he died. But trials were continuously presented before the Apostles till they were afraid that their followers would accuse them of telling lies. So I used to recite:-- "Till they (come to) think that they were treated as liars." reading 'Kudh-dhibu with double 'dh.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 49



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4524  
4524. ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کو بایں الفاظ تلاوت کرتے تھے: ﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا﴾ یعنی ذال کو تشدید کے بغیر پڑھتے اور اس کے معنی سورہ بقرہ میں موجود آیت: "یہاں تک کہ اللہ کے رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ) سنو! اللہ کی مدد قریب ہے۔" کے تناظر میں اس طرح کرتے ("جب رسول مایوس ہو گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔") (ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ) میں حضرت عروہ بن زبیر سے ملا تو میں نے ان کے سامنے مذکورہ آیت کے متعلق حضرت ابن عباس کا موقف بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4524]
حدیث حاشیہ:

اس مقام پر حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے ان دونوں کے ایک نظر یاتی موقف کی وضاحت مقصود ہے۔
یہاں ہم اس روایت کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتے ہیں جو مفصل طور پر سورہ یوسف میں بیان ہوئی ہے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے ﴿حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ کے متعلق دریافت کیا کہ لفظ (كُذِبُوا)
میں ذال پر شد پڑھی جائے گی یا نہیں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ ذال کو شد کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
اس پر انھوں نے کہا:
جب حضرات انبیاء ؑ کو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے تو پھر (ظَنُّوا)
کہنے کا کیا مطلب؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
ہاں۔
ہاں انھیں اس بات کا پورا پورا یقین تھا (یعنی اس مقام پر ظن، یقین کے معنی میں ہے،)
میں نے عرض کی:
اگر(كُذِبُوا)
کی ذال کو شد کے بغیر پڑھیں تو کیا خرابی ہے؟ انھوں نے فرمایا:
اللہ کی پناہ! بھلا حضرات انبیاء ؑ اپنے رب کے متعلق ایسا گمان کیونکر رکھ سکتے ہیں کہ وہ ان سے اپنے وعدے کا خلاف کرے گا؟ میں نے عرض کی:
پھر اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:
اس سے حضرات انبیاءؑ کے پیرو کار مراد ہیں جو اپنے رب پر ایمان لائے اور حضرات انبیاء ؑ کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں اور اللہ کی مدد آنے میں بھی دیر ہو گئی تو ایسے حالات میں حضرات انبیاء ؑ کفار و مکذبین کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور اپنے پیرو کار اہل ایمان کے متعلق بھی گمان کرنے لگے کہ وہ بھی ہمیں جھٹلادیں گے۔
تو اس وقت فواراً اللہ کی مدد آپہنچی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4695)

اس تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے (كُذِبُوا)
کو شد کے بغیر پڑھنے سے انکار نہیں کیا بلکہ حضرات انبیاء ؑ کے متعلق اس موقف سے اختلاف کیا ہےکہ انھیں یہ گمان ہوا کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و تائید کے جو وعدے کیے تھے وہ سب جھوٹ تھے۔
(فتح الباري: 467/8)
گویا ان کے نزدیک آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح ہو گا۔
"جب رسول نا امید ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان کے ماننے والےانھیں جھٹلا رہے ہیں تو فوراً اللہ کی مدد آپہنچی۔
" 3۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
حضرت عائشہ ؓ نے قرآءت تخفیف (ذال پر شد کے بغیر)
کا انکار کیا ہے۔
ممکن ہے کہ انھیں کسی قابل اعتبار ذریعے سے قرآءت تخفیف نہ پہنچی ہو جبکہ ائمہ کوفہ امام عاصم یحییٰ بن وثاب، امام اعمش ؒ، امام حمزہ ؒ اور امام کسائی ؒ نے اسے تخفیف سے پڑھا ہے اور اہل حجاز میں سے ابو جعفر بن قعقاع ؒ نے بھی ان حضرات کی موافقت کی ہے، نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ حضرت عبدالرحمٰن سلمی ؓ، حسن بصری اور محمد بن کعب قرظی نے بھی اسے تخفیف سے(شد کے بغیر)
پڑھا ہے۔
(فتح الباري: 467/8)
لیکن اگر ظن بمعنی وسوسہ ہو تو تخفیف تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں تب تب اس کے معنی ہوں گے:
"جب پیغمبر مایوس ہو گئے اور ان کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ عذاب یا مدد اس دنیا میں نہیں آئے گی۔
" یعنی وسوسہ یہ تھا کہ شاید اللہ کی طرف سے وعدہ خلافی ہو۔
قرآءت تخفیف کے ایک معنی اس طرح بھی کیے گئے ہیں۔
"جب رسول مایوس ہوئے اور انھیں گمان ہوا کہ ان سے وعدہ خلافی کی گئی ہے تو فوراً ہماری مدد آپہنچی۔
یعنی حضرات انبیاء کو اپنے پیرو کاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ یہ لوگ بھی جو ہم سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ان تکلیفوں کی وجہ سے الٹے پاؤں پھر جائیں گے اور ایمان سے محروم ہو کر کفار کی طرح ان کا بھی خانہ خراب ہو جائے گا تو فوراًہماری مدد آپہنچی۔
" یہ معنی کرنے سے حضرات انبیاء ؑ کی عصمت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا اور نہ قرآءت متواترہ ہی کے انکار کا کوئی راستہ کھلتا ہے کیونکہ یہ معنی کرنے سے کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ پیروکاروں کی طرف ہوگی۔
مشہور معنی یوں کیے گئے ہیں۔
"جب رسول ناامید ہونے لگے اور ان کی قوم نے خیال کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے تو ہماری مدد ان کے پاس آگئی۔
" اس میں (ظَنُّوا)
کا فاعل قوم یعنی مومنین کو قرار دیا جائے۔

(لِّلَّذِينَ)
جو اس سے پہلے ہے وہ دلالت کرتا ہے کہ یہ مضمون اہل ایمان کے لیے ہے۔
انھیں اس قسم کا گمان ہونا کوئی بعید نہیں جبکہ حضرات انبیاء ؑ سے ایسا گمان محال ہے۔
چنانچہ یہ معنی حضرت سعید بن جبیر نے خود ابن عباس ؓ سے نقل کیے ہیں کہ انبیاء ؑ اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور قوم نے یہ گمان کیا کہ انبیاء ؑ کے ساتھ مدد کا جو وعدہ تھا وہ صحیح نہیں تھا۔
قوم کے اس طرح گمان کرنے سے حضرات انبیاء ؑ کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
چونکہ یہ تو جیہ خود حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اس لیے یہ سب تو جیہات سے راجح معلوم ہوتی ہے اور اس پر کوئی اشکال بھی نہیں رہتا۔
(فتح الباري: 468/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4524   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.