الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
The Book on Al-Witr
2. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ
2. باب: وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 453
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: الوتر ليس بحتم كصلاتكم المكتوبة، ولكن سن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: " إن الله وتر يحب الوتر فاوتروا يا اهل القرآن " قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابن مسعود , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 336 (1416)، (الشطر الأخیر فحسب)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1677)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 114 (1169)، (تحفة الأشراف: 10135)، مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 115، 144، 145، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1621) (صحیح) (سند میں ”ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
۲؎: اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔
۳؎: صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1169)

قال الشيخ زبير على زئي: (453۔454) إسناد ضعيف /د 1416، ن 1676، جه 1169
أبو إسحاق عنعن (تقديم:107) وروى أحمد (107/1 ح 842) بسند حسن عن على رضى الله عنه قال: ”ليس الوتر بحتم كالصلاة ولكنه سنة فلا تدعوه۔۔۔۔ وقد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم“ وھو يغني عنه

   سنن النسائى الصغرى1676علي بن أبي طالبيا أهل القرآن أوتروا فإن الله وتر يحب الوتر
   جامع الترمذي453علي بن أبي طالبالله وتر يحب الوتر أوتروا يا أهل القرآن
   سنن ابن ماجه1169علي بن أبي طالبأوتروا فإن الله وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام302علي بن أبي طالب أوتروا يا أهل القرآن فإن الله وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام294علي بن أبي طالبليس الوتر بحتم كهيئة المكتوبة ولكن سنة سنة سنها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1169  
´وتر کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
اورانہی محققین کی رائے اَقْرَبُ إِلَی الصَّوّاب معلوم ہوتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل، 413/2  وصحیح ابوداؤد (مفصل)
حدیث: 1274)


(2)
  وتر سے پوری نماز تہجد بھی مراد ہوسکتی ہے۔
اور تہجد کے آخر میں پڑھی جانے والی چند رکعتیں بھی۔
احادیث میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اس حدیث میں اگر نماز تہجد مراد ہو تو وہ نفلی نماز ہے۔
تاہم اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
اوراگر تہجد کی آخری رکعتیں مراد ہوں۔
جو عرف عام میں وتر کہلاتی ہیں۔
تو انھیں سنت مؤکدہ قراردیا جا سکتا ہے۔

(3)
  وتر کے لفظی معنی طاق ہیں۔
یعنی وہ عدد جو دو پر تقسیم نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ایک ہے۔
اور ایک کا عدد سب سے پہلا طاق عدد ہے نماز وتر یا نماز تہجد مع وتر بھی طاق عدد میں ہوتی ہے۔
اس لئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔

(4)
جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ مومن کو بھی پسند ہوتا ہے۔
اس لئے اس پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
 
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1169   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 294  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وتر فرضوں کی طرح حتمی اور لازمی نہیں ہے بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔
اسے ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 294»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء أن الوتر ليس بحتم، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، والحاكم:1 /300، ووافقه الذهبي، أبوسحاق مدلس وعنعن.»
تشریح:
یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جو وتر کے وجوب کے قائل نہیں۔
بعض محققین نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عاصم بن ضمرہ کوفی متکلم فیہ ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اعدل الاقوال ذکر کیا ہے کہ وہ صدوق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی تحسین و تصحیح نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی اس کے شواہد ہیں جنھیں الموسوعۃ الحدیثیہ والوں نے قوی قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ / ۸۱) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 294   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 453  
´وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 453]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔

2؎:
اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،
صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔

3؎:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا،
اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے،
اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے،
نہ کہ صرف قرآن کا،
جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے،
یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے،
حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ:
(سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں،
نیز عاصم میں قدرے کلام ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 453   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.