الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اے رسول! ان کافروں کو حسرت ناک دن سے ڈرائیے“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And warn them (O Muhammad ) of the Day of grief and regrets..." (V.19:39)
حدیث نمبر: Q4730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابن عباس: اسمع بهم وابصر الله يقوله وهم اليوم لا يسمعون ولا يبصرون، في ضلال مبين، يعني قوله: اسمع بهم وابصر: الكفار يومئذ اسمع شيء وابصره، لارجمنك: لاشتمنك، ورئيا: منظرا، وقال ابن عيينة: تؤزهم ازا: تزعجهم إلى المعاصي إزعاجا، وقال مجاهد: إدا: عوجا، قال ابن عباس: وردا: عطاشا، اثاثا: مالا، إدا: قولا عظيما، ركزا: صوتا، غيا: خسرانا، بكيا: جماعة باك، صليا: صلي يصلى، نديا: والنادي مجلسا.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرِ اللَّهُ يَقُولُهُ وَهُمُ الْيَوْمَ لَا يَسْمَعُونَ وَلَا يُبْصِرُونَ، فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ، يَعْنِي قَوْلَهُ: أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ: الْكُفَّارُ يَوْمَئِذٍ أَسْمَعُ شَيْءٍ وَأَبْصَرُهُ، لَأَرْجُمَنَّكَ: لَأَشْتِمَنَّكَ، وَرِئْيًا: مَنْظَرًا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: تَؤُزُّهُمْ أَزًّا: تُزْعِجُهُمْ إِلَى الْمَعَاصِي إِزْعَاجًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِدًّا: عِوَجًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وِرْدًا: عِطَاشًا، أَثَاثًا: مَالًا، إِدًّا: قَوْلًا عَظِيمًا، رِكْزًا: صَوْتًا، غَيًّا: خُسْرَانًا، بُكِيًّا: جَمَاعَةُ بَاكٍ، صِلِيًّا: صَلِيَ يَصْلَى، نَدِيًّا: وَالنَّادِي مَجْلِسًا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أبصر بهم وأسمع» یہ اللہ فرماتا ہے آج کے دن (یعنی دنیا میں) نہ تو کافر سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں بلکہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ «أسمع بهم وأبصر‏» یعنی کافر قیامت کے دن خوب سنتے اور خوب دیکھتے ہوں گے (مگر اس وقت کا سننا دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا)۔ «لأرجمنك‏» میں تجھ پر گالیوں کا پتھراؤ کروں گا۔ لفظ «رئيا‏» کے معنی منظر، دکھاوا اور ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا مریم علیہا السلام جانتی تھیں کہ جو پرہیزگار ہوتا ہے وہ صاحب عقل ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہا «تؤزهم أزا‏» کا معنی یہ ہے کہ شیطان کافروں کو گناہوں کی طرف گھسیٹتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «إدا‏» کے معنی کج اور ٹیڑھی، غلط بات (یا کج اور ٹیڑھی باتیں)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وردا‏» کے معنی پیاسے کے ہیں اور «أثاثا‏» کے معنی مال اسباب۔ «إدا‏» بڑی بات۔ «ركزا‏» ہلکی، پست آواز۔ «غيا‏» نقصان، ٹوٹا۔ «بكيا‏»، «باكى» کی جمع ہے یعنی رونے والے۔ «صليا‏» مصدر ہے۔ «صلي»، «يصلى» ‏‏‏‏ باب «سمع»، «يسمع» سے یعنی جلنا۔ «ندي‏» اور «لنادي» دونوں کے معنی مجلس کے ہیں۔

حدیث نمبر: 4730
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا ابو صالح، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤتى بالموت كهيئة كبش املح، فينادي مناد: يا اهل الجنة، فيشرئبون وينظرون، فيقول: هل تعرفون هذا؟ فيقولون: نعم، هذا الموت وكلهم قد رآه، ثم ينادي: يا اهل النار، فيشرئبون وينظرون، فيقول: هل تعرفون هذا؟ فيقولون: نعم، هذا الموت وكلهم قد رآه، فيذبح، ثم يقول: يا اهل الجنة، خلود فلا موت، ويا اهل النار: خلود فلا موت، ثم قرا وانذرهم يوم الحسرة إذ قضي الامر وهم في غفلة سورة مريم آية 39 وهؤلاء في غفلة اهل الدنيا وهم لا يؤمنون سورة مريم آية 39".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ، فَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِي: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَيُذْبَحُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ: خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ سورة مريم آية 39 وَهَؤُلَاءِ فِي غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا وَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ سورة مريم آية 39".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، ہم سے اعمش نے، ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہو گا۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لیے ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضي الأمر وهم في غفلة‏» الخ اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو۔ جبکہ اخیر فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (یعنی دنیادار لوگ) اور ایمان نہیں لاتے۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Allah's Messenger said, "On the Day of Resurrection Death will be brought forward in the shape of a black and white ram. Then a call maker will call, 'O people of Paradise!' Thereupon they will stretch their necks and look carefully. The caller will say, 'Do you know this?' They will say, 'Yes, this is Death.' By then all of them will have seen it. Then it will be announced again, 'O people of Hell !' They will stretch their necks and look carefully. The caller will say, 'Do you know this?' They will say, 'Yes, this is Death.' And by then all of them will have seen it. Then it (that ram) will be slaughtered and the caller will say, 'O people of Paradise! Eternity for you and no death O people of Hell! Eternity for you and no death."' Then the Prophet, recited:-- 'And warn them of the Day of distress when the case has been decided, while (now) they are in a state of carelessness (i.e. the people of the world) and they do not believe.' (19.39)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 254


   صحيح البخاري4730سعد بن مالكيؤتى بالموت كهيئة كبش أملح فينادي مناد يا أهل الجنة فيشرئبون وينظرون فيقول هل تعرفون هذا فيقولون نعم هذا الموت وكلهم قد رآه ثم ينادي يا أهل النار فيشرئبون وينظرون فيقول هل تعرفون هذا فيقولون نعم هذا الموت وكلهم قد رآه فيذبح ثم يقول يا أهل الجنة خلود فلا م
   صحيح مسلم7181سعد بن مالكيجاء بالموت يوم القيامة كأنه كبش أملح فيوقف بين الجنة والنار فيقال يا أهل الجنة هل تعرفون هذا فيشرئبون وينظرون ويقولون نعم هذا الموت قال ويقال يا أهل النار هل تعرفون هذا قال فيشرئبون وينظرون ويقولون نعم هذا الموت قال فيؤمر به فيذبح قال ثم يقال يا أهل الج
   جامع الترمذي2558سعد بن مالكإذا كان يوم القيامة أتي بالموت كالكبش الأملح فيوقف بين الجنة والنار فيذبح وهم ينظرون فلو أن أحدا مات فرحا لمات أهل الجنة ولو أن أحدا مات حزنا لمات أهل النار
   جامع الترمذي3156سعد بن مالكيؤتى بالموت كأنه كبش أملح حتى يوقف على السور بين الجنة والنار فيقال يا أهل الجنة فيشرئبون ويقال يا أهل النار فيشرئبون فيقال هل تعرفون هذا فيقولون نعم هذا الموت فيضجع فيذبح فلولا أن الله قضى لأهل الجنة الحياة فيها والبقاء لماتوا فرحا ولولا أن الله قضى لأهل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2558  
´جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی طرح لایا جائے گا اور جنت و جہنم کے درمیان کھڑی کی جائے گی پھر وہ ذبح کی جائے گی، اور جنتی و جہنمی دیکھ رہے ہوں گے، سو اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا تو جنتی مر جاتے اور اگر کوئی غم سے مرنے والا ہوتا تو جہنمی مر جاتے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2558]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(فلو أن أحدًا کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے،
کیوں کہ عطیہ عوفی ضعیف ہیں،
اور اس ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں،
اور نہ اس کا کوئی شاہد ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2558   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4730  
4730. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موت کو ایک ایسے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا جو سفید اور سیاہ ہو گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر وہ منادی کرنے والا آواز دے گا: اے اہل دوزخ! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اس کو پہچانتے ہوئے جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر اس (مینڈھے) کو ذبح کیا جائے گا اور اعلان کرنے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! ہمیشہ جنت میں رہو، تمہارے لیے موت نہیں۔ اور اے اہل دوزخ! تم ہمیشہ دوزخ میں رہو، اب تمہارے لیے موت نہیں۔ آپ نے اس آیت کو پڑھا: ﴿وَأَنذِرْهُمْ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4730]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو سعید خدری سعد بن مالک انصاری ہیں حافظ حدیث تھے74 ھ میں بعمر84 سال انتقال کیا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
(رضي اللہ عنهم وأرضاهم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4730   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4730  
4730. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موت کو ایک ایسے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا جو سفید اور سیاہ ہو گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر وہ منادی کرنے والا آواز دے گا: اے اہل دوزخ! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اس کو پہچانتے ہوئے جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر اس (مینڈھے) کو ذبح کیا جائے گا اور اعلان کرنے والا آواز دے گا: اے اہل جنت! ہمیشہ جنت میں رہو، تمہارے لیے موت نہیں۔ اور اے اہل دوزخ! تم ہمیشہ دوزخ میں رہو، اب تمہارے لیے موت نہیں۔ آپ نے اس آیت کو پڑھا: ﴿وَأَنذِرْهُمْ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4730]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
موت کو لایا جائے گا اور اسے پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا پھر اہل جنت کو آواز دی جائے گی وہ اس طرح ڈرتے ہوئے دیکھیں گے۔
کہ کہیں انھیں جنت سے نکال نہ دیا جائے۔
پھر اہل دوزخ کو آواز دی جائے گی۔
وہ بہت خوش ہوں گے اور خوشی سے اپنی گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے کہ انھیں دوزخ سے نکالا جائے گا۔
پھر ان سب کو کہا جائے گا کیا تم اسے پہنچانتےہو؟ وہ سب کہیں گے ہم اسے جانتے ہیں۔
پھر اسے ذبح کردینے کا حکم دیا جائے گا تو اسے پل صراط پر ذبح کیا جائے گا۔
پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا تم جہاں جہاں ہو اس میں ہمیشہ رہو گے۔
موت نہیں آئے گی۔
(سنن ابن ماجہ الزھد حدیث4327)
ایک روایت میں ہے کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار پر ذبح کیا جائے گا۔
(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2557)

مقصد یہ ہے کہ اہل جنت کی خوشی کو دوبالا اور اہل جہنم کی پریشانی کو زیادہ کرنے کے لیے موت کو ذبح کر دیا جائے گا چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
موت کو اس لیے ذبح کیا جائے گا تاکہ اہل جنت کی خوشی میں اضافہ ہو اور اہل جہنم کا افسوس اور دکھ مزید بڑھ جائے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6548)

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے لیے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے انھیں موت نہیں آئے گی اور نہ ان کے لیے راحت و آرام ہی کی زندگی ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان پر موت آئے گی کہ وہ مرجائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔
(فاطر: 35۔
36)

واضح رہے کہ یہ اعلان اس وقت کیا جائے گا جب شفاعت کی وجہ سے نجات پانے والے جنت میں جا چکے ہوں گے اور جہنم میں صرف وہی باقی رہ جائیں گے جن کے لیے وہاں ہمیشہ رہنے کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔
وہ وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش بھی کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے فرشتے انھیں وہاں سے نکلتے نہیں دیں گے اور انھیں جسمانی سزا اور ذہنی کو فت پہنچانے کے لیے نت نئے تجربےکریں گے۔
أعاذنا اللہ منه
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4730   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.