الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
حدیث نمبر: Q4936
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: الآية الكبرى: عصاه ويده، يقال: الناخرة والنخرة سواء مثل الطامع والطمع والباخل والبخيل، وقال بعضهم: النخرة البالية والناخرة العظم المجوف الذي تمر فيه الريح فينخر، وقال ابن عباس: الحافرة: التي امرنا الاول إلى الحياة، وقال غيره: ايان مرساها: متى منتهاها ومرسى السفينة حيث تنتهي.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْآيَةَ الْكُبْرَى: عَصَاهُ وَيَدُهُ، يُقَالُ: النَّاخِرَةُ وَالنَّخِرَةُ سَوَاءٌ مِثْلُ الطَّامِعِ وَالطَّمِعِ وَالْبَاخِلِ وَالْبَخِيلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: النَّخِرَةُ الْبَالِيَةُ وَالنَّاخِرَةُ الْعَظْمُ الْمُجَوَّفُ الَّذِي تَمُرُّ فِيهِ الرِّيحُ فَيَنْخَرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحَافِرَةِ: الَّتِي أَمْرُنَا الْأَوَّلُ إِلَى الْحَيَاةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَيَّانَ مُرْسَاهَا: مَتَى مُنْتَهَاهَا وَمُرْسَى السَّفِينَةِ حَيْثُ تَنْتَهِي.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «الآية الكبرى‏» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی عصا اور ان کا ہاتھ ہے۔ «عظاما ناخرة» اور «ناخرة» دونوں طرح سے پڑھا ہے جیسے «طامع» اور «طمع» اور «باخل» اور «بخيل» اور بعضوں نے کہا «نخرة» اور «ناخرة» میں فرق ہے۔ «نخرة» کہتے ہیں گلی ہوئی ہڈی کو اور «ناخرة» کھوکھلی ہڈی جس کے اندر ہوا جائے تو آواز نکلے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حافرة‏» ہماری وہ حالت جو دنیا کی (زندگی) میں ہے۔ اوروں نے کہا «أيان مرساها‏» یعنی اس کی انتہا کہاں ہے یہ لفظ «مرسى السفينة» سے نکلا ہے۔ یعنی جہاں کشتی آخر میں جا کر ٹھہرتی ہے۔

حدیث نمبر: 4936
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن المقدام حدثنا الفضيل بن سليمان حدثنا ابو حازم حدثنا سهل بن سعد رضي الله عنه قال رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بإصبعيه هكذا بالوسطى والتي تلي الإبهام: «بعثت والساعة كهاتين» .(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هَكَذَا بِالْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ: «بُعِثْتُ وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ» .
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔

Narrated Sahl bin Sa`d: I saw Allah's Messenger pointing with his index and middle fingers, saying. "The time of my Advent and the Hour are like these two fingers." The Great Catastrophe will overwhelm everything.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 458


   صحيح البخاري6503سهل بن سعدبعثت أنا والساعة هكذا
   صحيح البخاري5301سهل بن سعدبعثت أنا والساعة كهذه من هذه أو كهاتين وقرن بين السبابة والوسطى
   صحيح البخاري4936سهل بن سعدبإصبعيه هكذا بالوسطى والتي تلي الإبهام بعثت والساعة كهاتين
   صحيح مسلم7404سهل بن سعدبعثت أنا والساعة هكذا
   مسندالحميدي954سهل بن سعدبعثت أنا والساعة كهذه من هذه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4936  
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ:
یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔
دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4936   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4936  
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ:

درمیانی انگلی تھوڑی سی آگے ہوتی ہے اور سبابہ اس کے پیچھے ہوتی ہے،مطلب یہ ہے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوں اور میرے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں،اسی طرح اور قیامت ملے ہوئے ہیں،یعنی میرے اور قیامت کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجے گا۔

اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس امت کی عمر کاتعین کرناچاہا ہے لیکن بے سود ثابت ہواہے کیونکہ قیامت کے واقع ہونے کا علم اللہ کے سوا کسی کےپاس نہیں ہے۔
واللہ اعلم الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الإجابة بالإشارة باليد والرأس (العلم)
2. قرب قيام الساعة (الإيمان)
3. بعثة الرسول ووفاته بين يدي الساعة (الإيمان)
موضوعات 1. ہاتھ اور سر کے اشارے میں جواب دینا (علم)
2. قیامت کا وقوع قریب ہونا (ایمان)
3. قیامت سے پہلے نبی اکرمﷺ کی بعثت اوروفات (ایمان)
Topics 1. Answering with Sign of Hand or Head (The Knowledge)
2. The day of Judgement is near (Faith)
3. Prophethood and death of Pdophet PBUH before Resurrection (Faith)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/4936 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے:
"میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔
" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں:
جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔
حدیث حاشیہ:

درمیانی انگلی تھوڑی سی آگے ہوتی ہے اور سبابہ اس کے پیچھے ہوتی ہے،مطلب یہ ہے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوں اور میرے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں،اسی طرح اور قیامت ملے ہوئے ہیں،یعنی میرے اور قیامت کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجے گا۔

اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس امت کی عمر کاتعین کرناچاہا ہے لیکن بے سود ثابت ہواہے کیونکہ قیامت کے واقع ہونے کا علم اللہ کے سوا کسی کےپاس نہیں ہے۔
واللہ اعلم حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرمارہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔
دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA)
:
I saw Allah's Apostle (ﷺ) pointing with his index and middle fingers, saying. "The time of my Advent and the Hour are like these two fingers." The Great Catastrophe will overwhelm everything. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔
دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم4973٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
4936٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4555٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
4936٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
4652٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4738٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4936٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4936١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4936 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × لفظ تفسیر کا مادہ ف،س،رہے جو باب ضرب اور نصر دونوں میں مستعمل ہے۔
اس کے لغوی معنی ہیں:
بے حجاب کرنا،ظاہرکرنا اور کھول کربیان کرنا۔
کسی لفظ کی تشریح کو اس لیے تفسیر کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے سے لفظ کے مطلب اور مقصود کو بے نقاب کیاجاتا ہے۔
سواری کا پالان اتارکر اس کی پیٹھ کو ننگا کرنابھی تفسیر کہلاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ننگا کرنے میں بھی ظاہرکرنے کامفہوم پایا جاتا ہے۔
ان لغوی معنی کے پیش نظر تفسیر محسوسات اور معقولات دونوں کے کشف و اظہار کے لیے مستعمل ہے،البتہ عقلی اور مادی اشیاء کے بیان کے لیے یہ لفظ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
تفسیر کااصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسا علم جس میں قرآنی آیات کے تلفظ،ان کے اسباب نزول،نیز مکی ومدنی،محکم ومتشابہ،ناسخ و منسوخ،خاص وعام،مطلق ومقید،مجمل ومفسر،حلال وحرام،وعدووعید،امرونہی اور عبر وامثال وغیرہ کی وضاحت کی جاتی ہو،اس علم کی تفسیر کہا جاتا ہے۔
متقدمین نے تفسیر کی شرائط ان الفاظ میں بیان کی ہیں کلام اللہ کے ایسے معانی لیے جائیں جو حقیقت یامشہورومعروف مجاز پر مبنی ہوں اورکلام اللہ کا سیاق وسباق بھی اس معنی کے مخالف نہ ہو،نیز قرون اولیٰ کے اسلاف سے وہ معنی ثابت ہوں۔
اگرکسی لفظ کی تشریح میں یہ تینوں شرطیں پائی جائیں تو یہ تفسیر ہوگی۔
اگردوشرطیں پائی جائیں توتاویل قریب اور اگر ایک شرط پائی جائے تو تاویل بعید ہوگی،بصورت دیگر اس تشریح کوتحریف کا نام دیا جائے گا۔
اگرچہ متقدمین کے نزدیک تفسیر اور تاویل میں کوئی فرق نہیں لیکن متاخرین نے ان دونوں میں فرق کیا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف آراء منقول ہیں۔
ان کی تفصیل حسب ذیل ہیں۔

تفسیر بیان المراد بالفظ اور تاویل بیان المراد بالمعنی ہے،یعنی لفظ کی وضاحت کا نام تفسیر اور معنی کی وضاحت کا نام تاویل ہے۔

تفسیر کا تعلق نقل وروایت سے ہے جبکہ تاویل کی بنیاد عقل ودرایت ہے۔
دوسرے لفظوں میں اگر احادیث وآثار سے وضاحت کی جائے تو تفسیر کہلائے گی اوراگر اپنی سوجھ بوجھ سے معنی کا تعین اور وضاحت کی جائے تو وہ تاویل کہلائے گی۔

تفسیر اس تشریح کو کہتے ہیں جس میں ایک معنی کا احتمال ہو اورتاویل میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے جن میں دلائل وقرائن کے ذریعے سے ایک معنی کو اختیار کیا جاتا ہے۔

یقین کے ساتھ تشریح کرنے کو تفسیر اور تردد کے ساتھ وضاحت کرنے کو تاویل کہا جاتا ہے۔

الفاظ کے مفہوم بیان کرنے کو تفسیر اور اس مفہوم سے برآمد شدہ نتائج کو توضیح کوتاویل کہتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تفسیر اور تاویل دونوں مترادف(ہم معنیٰ)
ہیں،ان میں کوئی فرق نہیں۔
محدثین عظام نے جہاں قواعد جرح وتعدیل کے مطابق احادیث جمع کرکے ان سے مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے وہاں انھوں نے کتاب اللہ کی تفسیر پر بھی توجہ دی ہے۔
لیکن انھوں نے اصطلاحی تفسیر سے ہٹ کر صرف انھی روایات کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے جو کسی حد تک قرآنی آیات سے مناسبت رکھتی ہوں کیونکہ مراد ربانی کا اظہار جزم ووثوق کے ساتھ اسی وقت ممکن ہےجب وہ مراد خودصاحب قرآن سے منقول ہویا پھر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہو جونزول قرآن کے چشم دید گواہ تھے اور انھوں نے مشکلات قرآن کے فہم وادراک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ امیرالمحدثین فی الحدیث ہیں،اس لیے ان کی تفسیر متاخرین کی تفسیر کےمطابق نہیں ہے جس میں مغلقات ومشکلات کا حل ہو یا مسائل واحکام کا منظم طریقے سے استنباط واستخراج ہوبلکہ ان کے ہاں تفسیر کا عام مفہوم ہے اوراس مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے کتاب التفسیر میں احادیث وروایات کو جمع فرمایا۔
ہم اس کتاب التفسیر کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
الف۔
تشریح مفردات قرآن۔
ب۔
توضیح آیات قرآن۔
مفردات کی تشریح کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علی بن ابو طلحہ کے صحیفے سے خوب استفادہ کیا ہے جو حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت ا بن عباس سے مروی ہے۔
یہ نسخہ حضرت لیث کے منشی ابوصالح کے پاس محفوظ تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعلاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مفردات کے معانی کو نقل فرمایا ہے۔
اس سلسلے میں جومعلق روایات ہیں انھیں ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے موصولاً بیان کیا ہے،نیز عکرمہ،ابوالعالیہ،زید بن اسلم،ابومیسرہ اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مفردات کی تشریح کے متعلق بیشتر مواد ابوعبیدہ معمر بن مثنیٰ کی کتاب"مجاز القرآن"سے لیا ہے۔
ابوعبیدہ معمر بن مثنیٰ عربی لغت کے بہر ماہر تھے لیکن علم حدیث میں انھیں اتنی مہارت نہ تھی۔
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
ابوعبیدہ محدث نہیں تھے،میں نے ان کاتذکرہ اسی لیے کیا ہے کہ وہ زبان اورلوگوں کی تاریخ کے متعلق وسعت علمی رکھتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء: 445/9۔
)

مفردات کی تشریح میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب حسب ذیل ہے:
۔
کسی خاص مناسبت کی بنا پر ایک سورت کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے دوسری سورت کے الفاظ بھی ذکر کردیتے ہیں،مثلاً:
(إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ) (النساء: 145/4۔
)

کی لغوی تشریح کرتے ہوئے(نَفَقًا)
کے معنی بھی بیان کردیے ہیں جو سورۃ الانعام آیت: 35 میں ہے:
اسی طرح(الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ) (البقرۃ: 127/2۔
)

کی وضاحت کرتے ہوئے:
(الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ)
کی وضاحت بھی کردی جو سورۃ النورآیت: 60 میں ہے۔
۔
مفردات کی تشریح کرتے ہوئے ایک مادے سے دوسرے مادے کی طرف بھی بعض اوقات منتقل ہوجاتے ہیں،مثلاً:
(إِلْحَافًا) (البقرۃ273/2۔
)

کی تشریح کرتے ہوئے(فَيُحْفِكُمْ)
کی وضاحت بھی کردی ہے جو سورہ محمد آیت: 37 میں ہے۔
۔
بعض اوقات تشریح کرتے ہوئے ایک باب سے دوسرے باب کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں:
مثلاً(لا يَلِتْكُمْ) (الحجرات 14: 49۔
)

کی وضاحت کرتے ہوئے(وَمَا أَلَتْنَاهُمْ)
کے معنی بھی بیان کردیے ہیں جو سورہ طورآیت: 21میں ہے۔
اسی بناپر کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب التفسیر"درمنشور" یعنی ایسی موتیوں کی طرح ہے جو دھاگے کے بغیر پھیلادیے گئے ہوں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے توضیح آیات کے سلسلے میں مندرجہ ذیل اصولوں کو پیش نظر رکھاہے:
۔
آیات میں کسی مجمل واقعے کی تفصیل احادیث سے بیان کی جاتی ہے جیسا کہ(لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ) (المنافقون 63/8۔
)

کے تحت حدیث: 4907 میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
۔
کسی معین چیز کی کیفیت یا کمیت(مقدار)
کو احادیث سے بیان کیا جاتا ہے۔
الف۔
(إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ) (الحجر 18: 15۔
)

کی کیفیت کو حدیث: 4701 میں بیان کیا گیا ہے۔
ب۔
(وَظِلٍّ مَمْدُودٍ) (الواقعۃ 56: 30۔
)

کی کمیت،یعنی لمبائی کو حدیث: 4881 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
۔
سبب نزول کی تعین کے لیے حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جیساکہ(إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ) (القصص 56: 28۔
)

کے متعلق حدیث: 4772 کو دیکھاجاسکتا ہے۔
۔
شان نزول کے متعلق کسی غلطی کی اصلاح حدیث سے کی جاتی ہے جیساکہ(وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ) (الاحقاف 46: 17۔
)

کے متعلق حدیث: 4827 میں موقف اختیار کیا گیا ہے۔
۔
آیت سے غلط استدلال کیا تو ا س کی اصلاح کے لیے حدیث لائی جاتی ہےجیساکہ:
(وَلَقَدْ رَآهُ نـزلَةً أُخْرَى) (النجم 13: 53۔
)

میں کسی نے غلط استدلال کیاتو اس کی اصلاح حدیث: 4855 سے کی گئی ہے۔
۔
صفات باری تعالیٰ کو مبنی برحقیقت ثابت کرنے کےلیے حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے جیسا کہ:
(يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ) (القلم 42: 68۔
)

میں صفت ساق کی وضاحت حدیث: 4919 سے کی گئی ہے۔
۔
حدیث کے ذریعے سے آیت کے کسی لفظ کے معنی کو متعین کیا جاتاہے جیسا کہ (وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ) (البقرہ: 238/2۔
)

میں (قَانِتِينَ)
کی وضاحت حدیث: 4534سے کی گئی ہے۔
۔
کسی لفظ کے معنی واضح ہوتے ہیں لیکن حدیث سے اس کی مراد کو متعین کیا جاتا ہے جیسا کہ(حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ) (البقرہ: 238/2۔
)

میں(الْوُسْطَىٰ)
کی تعین حدیث: 4533 سے کی گئی ہے۔
۔
دوران حادثہ میں اگرکوئی آیت تلاوت کی گئی ہوتوحدیث سے اس حادثے کی تفصیل بیان کی جاتی ہے جیسا کہ (جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ) (بنی اسرائیل: 81: 17۔
)

کی تفصیل حدیث: 4720 میں بیان کی گئی ہے۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسئلے کی تائید میں کسی آیت کو تلاوت فرمایا تو اس واقعے کو متعلقہ آیت کے تحت بیان کردیا گیا ہے جیسا کہ(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ) (محمد۔
22: 47۔
)

کو حدیث: 4831 میں بیان کیا گیا ہے۔
۔
کسی آیت کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پڑھنا ثابت تھا،حدیث کے ذریعے سے اسے بیان کیا جاتا ہے جیسا کہ(قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ) (الانعام۔
65/6۔
)

کی تفسیر حدیث: 4628سے کی گئی ہے۔
۔
بعض دفعہ کسی سورت کے اختتام پرکچھ پڑھنے کی فضیلت حدیث سے بیان کی جاتی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنے کی فضیلت حدیث سے بیان کی گئی ہے۔
(صحیح البخاری الجھاد حدیث 780۔
781۔
782۔
)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے اعتراض کیا ہے کہ باب(غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ)
کا کوئی محل نہیں اور حدیث الباب کا تفسیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(عمدۃ القاری 106/18۔
)

اس تفصیل سے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔
۔
قرآن کریم کے سیاق وسباق سے کسی آیت کا مفہوم متعین نہیں ہوپاتا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث کے ذریعے سے اس کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں جیسا کہ(وَمَا نَتَنزلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا) (طبع دارالکتب العلمیۃ۔
)

کے مفہوم کو حدیث: 4731 سے واضح کیا ہے۔
۔
بعض دفعہ لفظ حدیث کے ذریعے سے لفظ قرآن کی تفسیر کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ دونوں جگہ پر ایک ہی معنی مراد ہیں جیسا کہ(وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي) (مریم 64: 19۔
)

کے تحت جو حدیث بیان کی گئی ہے،اس میں یہی مفہوم کارفرما ہے۔
اس آخری اصول کو تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عام استعمال کرتے ہیں کہ حدیث میں کوئی غریب یانادرلفظ آجاتا ہے تو اس لفظ کی مناسبت سے حدیث کے آخر میں متعلقہ آیت کو بھی ذکرکردیتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھڑدوڑ کے لیے ایک حد مقرر کردیتے تھے جسے عربی میں(أَمَد)
کہتے ہیں۔
اس مناسبت سے قرآنی آیت:
(فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ) (طہٰ: 41: 20۔
)

کو ذکر کیا ہے۔
(الحدید 16: 57۔
)

بہرحال کتاب التفسیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مجموعی اسلوب کچھ اس طرح ہےکہ سورت کے آغاز میں اس سورت کے منتخب الفاظ کی لغوی تشریح کی جاتی ہے۔
مختلف آیات کے تحت ابواب قائم کرکے احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔
لیکن اس کا کوئی متعین اصول نہیں۔
کلمہ مفردہ کی تشریح جس طرح ابتدا میں کی جاتی ہے اسی طرح چند ابواب اور احادیث ذکر کرنے کے بعد بھی کی جاتی ہے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک سورت کے کلماتِ مفردہ کی تشریح میں دوسری سورت کے کلمات کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔
اس انتقال میں کبھی مناسبت ہوتی ہے کبھی مناسبت کے بغیر انھیں ذکر کردیا جاتا ہے۔
کلمات کی تشریح کرتے وقت کہیں کہیں جمہور کی قراءت کے بجائے دوسری قراءات بھی ذکر کی جاتی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی صحیح میں تفسیری روایات کو بیان کیا ہے لیکن اس میں تفسیر بہت کم ہے،اس لیے بعض حضرات نے صحیح مسلم کو جوامع میں داخل نہیں کیا۔
امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی سنن میں کتاب الحروف کے عنوان سے تفسیرقرآن کا اہتمام کیا ہے،البتہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جامع میں بہت سی تفسیری روایات بیان کی ہیں،اس بنا پر تفسیر کے اعتبار سے جامع ترمذی کو صحیح بخاری کے بعد سب سے زیادہ نفع مند شمار کیا گیا ہے۔
انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز واسلوب کو اختیار کیا ہے۔
الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں مختلف آیات اور سورتوں پر473 عنوان قائم کیے ہیں اور پانچ صد اڑتالیس (548)
مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں چار صد پینسٹھ(465)
احادیث موصول اور باقی معلق ہیں۔
ان میں چار صداڑتالیس(448)
احادیث مکرراورسو(100)
ایسی ہیں جنھیں پہلی دفعہ ذکر کیا گیا ہے،پھر ان احادیث میں چھیاسٹھ(66)
ایسی ہیں جنھیں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیاہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ صد اسی(580)
ایسے آثار ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ کتاب التفسیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اسلوب پر یہ مختصر تبصرہ ہماراحاصل مطالعہ ہے۔
اس میں ان اعتراضات کا جواب بھی مل جائے گا جو تفسیر قرآن کے سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے کیے گئے ہیں۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کتاب التفسیر کا مطالعہ کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4936   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.