الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
حدیث نمبر: Q4950
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: إذا سجى: استوى، وقال غيره: سجى: اظلم وسكن، عائلا: ذو عيال.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِذَا سَجَى: اسْتَوَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَجَى: أَظْلَمَ وَسَكَنَ، عَائِلًا: ذُو عِيَالٍ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «إذا سجى‏» جب برابر ہو جائے۔ اوروں نے کہا جب اندھیری ہو جائے یا تھم جائے۔ «عائلا‏» بال بچے والا، محتاج۔

حدیث نمبر: 4950
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا الاسود بن قيس، قال: سمعت جندب بن سفيان رضي الله عنه، قال:" اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يقم ليلتين او ثلاثا، فجاءت امراة، فقالت: يا محمد، إني لارجو ان يكون شيطانك قد تركك لم اره قربك منذ ليلتين او ثلاثة، فانزل الله عز وجل: والضحى {1} والليل إذا سجى {2} ما ودعك ربك وما قلى {3} سورة الضحى آية 1-3، قوله: ما ودعك ربك وما قلى سورة الضحى آية 3:(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبَ بْنَ سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى {3} سورة الضحى آية 1-3، قَوْلُهُ: مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى سورة الضحى آية 3:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور دو یا تین راتوں کو (تہجد کے لیے) نہیں اٹھ سکے۔ پھر ایک عورت (ابولہب کی عورت عوراء) آئی اور کہنے لگی۔ اے محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ دو یا تین راتوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس وہ نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏» آخر تک یعنی قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بیزار ہوا ہے۔

Narrated Jundub bin Sufyan: Once Allah's Messenger became sick and could not offer his night prayer (Tahajjud) for two or three nights. Then a lady (the wife of Abu Lahab) came and said, "O Muhammad! I think that your Satan has forsaken you, for I have not seen him with you for two or three nights!" On that Allah revealed: 'By the fore-noon, and by the night when it darkens, your Lord (O Muhammad) has neither forsaken you, nor hated you.' (93.1-3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 475


   صحيح البخاري4951جندب بن عبد اللهما أرى صاحبك إلا أبطأك فنزلت ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري4950جندب بن عبد اللهاشتكى رسول الله فلم يقم ليلتين أو ثلاثا فجاءت امرأة فقالت يا محمد إني لأرجو أن يكون شيطانك قد تركك لم أره قربك منذ ليلتين أو ثلاثة فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري4983جندب بن عبد اللهاشتكى النبي فلم يقم ليلة أو ليلتين فأتته امرأة فقالت يا محمد ما أرى شيطانك إلا قد تركك فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري1124جندب بن عبد اللهاشتكى النبي فلم يقم ليلة أو ليلتين
   صحيح البخاري1125جندب بن عبد اللهاحتبس جبريل على النبي فقالت امرأة من قريش أبطأ عليه شيطانه فنزلت والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح مسلم4656جندب بن عبد اللهقد ودع محمد فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح مسلم4657جندب بن عبد اللهشيطانك قد تركك لم أره قربك منذ ليلتين أو ثلاث فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   مسندالحميدي795جندب بن عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1125  
´مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے`
«. . . عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ: أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىى . . .»
. . . جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابولہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى . . . [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد: 1125]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہاں مناسبت مشکل ہے، دراصل یہ حدیث اپنی پچھلی حدیث کا تتمہ ہے اور وہ حدیث بھی الاسود بن قیس سے روایت ہے اور دونوں کا مفہوم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أن الأسود حدث به على الوجهين فحمل عنه كل واحد مالم يحمله الآخر، وحمل عنه سفيان الثوري الأمرين فحدث به مرة هكذا ومرة هكذا» [فتح الباري ج4 ص9]
جو ظاہر ہے وہ یہ کہ اسود نے دو طریقوں سے روایت کو بیان کیا ہے اور جو سفیان نے بیان کیا کہ دو امر پر ہے تو ایک کو اس طرح سے بیان کیا اور دوسرے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا۔ (یعنی سفیان رحمہ اللہ نے دونوں حدیثوں کو مختلف بیان کیا ہے حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی مخرج کے ساتھ ہے)
◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ واضح کر دیں کہ حدیث ایک ہی ہے اس کے مخرج کے اتحاد کی وجہ سے اگرچہ سبب مختلف ہیں، لیکن قصہ ایک ہے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے آپ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث أن هذا من تتبة الحديث السابق، ويدفع بهذا قاله ابن التين: ذكرا احتباس جبريل عليه السلام فى هذا الباب ليس فى موضعه، وذالك لأن الحديث واحد لا تحاد مخرجه، وان كان السبب مختلفًا» [عمدة القاري، ج7، ص258]

◈ شاہ ولی اللہ محمدث دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ان هذه الزيادة أيضًا داخله فى تلك القصة ولو حمل رواية محمد بن كثير أيضًا على ذالك لصح استدلال به فتدبر وتأمل» [شرح أبواب البخاري، ص315]
یعنی یہ تو زیادتی (انگلی زخمی ہونے کی) داخل اس قصے میں (جس حدیث کا ذکر ابتدا میں ہوا) اگر روایت محمد بن کثیر سے ہی لی جاتی تو استدلال صحیح ہوتا پس غور کریں۔‏‏‏‏
اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو راتوں تک تہجد نہ پڑھی اس کی وجہ بھی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک میں سخت تکلیف تھی۔

❀ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«قال كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى غار فدميت إصبعه فقال: هل أنت إلا اصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت» [رواه ترمذي من طريق ابن عينية عن الأسود]
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا کہ آپ کی انگلی پر پتھر لگا تو خون نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک انگلی ہو اللہ کی راہ میں تمہیں مار لگی اور خون آلود ہوئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین راتوں کا قیام نہیں کیا تکلیف کی وجہ سے اور اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام بھی کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو ایک عورت نے کہا کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو یہ سورۃ الضحی نازل ہوئی۔‏‏‏‏ دیکھئے تفصیل کے لیے: [ضياء الساري للامام عبدالله بن سالم البصري ج10 ص271 وفتح الباري لابن حجر ج4 ص8]
وہ عورت کون تھی؟
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فهي أم جميل العوراء بنت حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف وهى أخت أبى سفيان بن حرب وأمرأة أبى لهب» [فتح الباري، ج4، ص9]
یعنی وہ عورت ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی۔

◈ امام ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذه المرأة هي زوجة أبى لهب أم جميل واسمها العوراء» [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح، ص78]
یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اور اس کا نام عوراء ہے۔
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ دونوں احادیث کا مخرج ایک ہی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کے درد کی کثرت میں رات کا قیام نہ کر سکے اسی حالت میں جبریل علیہ السلام بھی وحی لے کر نہیں آئے تو ابولہب کی بیوی نے یہ گستاخی کی کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو جواباً اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔

فائدہ:
بعض مفسرین نے بیان کیا کہ یہ عورت جس نے کہا: کہ آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا ہے وہ سیدہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اس روایت کو اسماعیل القاضی نے (الاحکام) میں اور امام طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام ابوداؤد نے اعلام النبوۃ میں ذکر فرمایا ہے اور ان تمام طرق میں عبداللہ بن شداد بن الھاد ہیں اور وہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان تک اسناد صحیح ہے۔ [ديكهئے تفسير الطبري ج12 ص622، فتح الباري ج4 ص8]
مگر ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ لفظ کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا یہ لفظ خدیجہ رضی اللہ عنہا تک درست نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المتنكرة فى الخبر» یعنی اس خبر میں نکارت ہے جو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں۔
بہت خوبصورت بات کہی صاحب متواری نے آپ رقمطراز ہیں کہ:
«ولا يصح عن خديجة رضي الله عنها ولا يقتضيه ايمانها وفضلها فقد كان من شأنها ان تثبت وناهيك بحديثها اول الوحي وقولها والله لا يخزيك الله ابدًا» [المتوازي ص122]
یہ خبر درست نہیں ہے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اور نہ ہی اس چیز کا تقاضا کیا جا سکتا ہے ان کے ایمان اور فضیلت کے سبب اور یقیناًً ان کی شان یہ ہے کہ وہ ثابت قدم رہنے والی ہیں جیسا کہ (بخاری شریف کی وہ حدیث جس میں پہلی وحی کا ذکر ہے کہ) سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔
لہٰذا ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس قسم کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی، جو بات صحیح ہے اور پایہ ثبوت تک پہنچی وہ یہی ہے کہ ابولہب کی بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کی تھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 244   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4950  
4950. حضرت جندب بن سفیان ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بیمار ہو گئے اور دو یا تین راتیں نہ اٹھ سکے تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد! میرا خیال ہے کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا ہے، دو یا تین راتوں سے میں اسے نہیں دیکھ سکی ہوں کہ وہ آپ کے پاس آیا ہو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: چاشت کے وقت کی قسم! رات کی قسم جب وہ چھا جائے! آپ کو آپ کے رب نے نہ تو چھوڑا ہے اور نہ وہ (آپ سے) ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4950]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اس سے مراد ابولہب کی بیوی ام جمیل ہے۔
چونکہ یہ عورت کافر تھی، اس لیے اس کا طرز گفتگو بھی کافرانہ ہے۔
اس نے بطور طعن و طنز کے کہا کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ آپ سے ناراض ہو گیا ہے۔
اس موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی آپ کو تسلی دینے کے لیے کچھ کہا تھا جس کی وضاحت آئندہ حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4950   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.