الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
شکار کرنے، ذبح کیے جانے والے اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت کھایا جا سکتا ہے
The Book of Hunting, Slaughter, and what may be Eaten
7. باب إِبَاحَةِ الضَّبِّ:
7. باب: گوہ کا گوشت حلال ہے (یعنی سوسمار کا)۔
Chapter: The permissibility of eating the Dabb (mastigure)
حدیث نمبر: 5034
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، عن عبد الله بن عباس ، قال: دخلت انا وخالد بن الوليد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال: بعض النسوة اللاتي في بيت ميمونة اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، فقلت: احرام هو يا رسول الله؟، قال: " لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه "، قال خالد: فاجتررته فاكلته، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيد مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ مَيْمُونَةَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: بَعْضُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ أَخْبِرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقُلْتُ: أَحَرَامٌ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ "، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ.
امام مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، اتنے میں ایک بھنا ہوا سانڈا لا یا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے کا قصد کیا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر جو عورتیں تھیں۔ان میں سے کسی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز کھانے لگے ہیں وہ آپ کو بتا دو، (یہ سنتے ہی) آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حرا م ہے؟ آپ نے فرمایا: " نہیں لیکن یہ (جا نور) میری قوم کی سر زمین میں نہیں ہو تا، اس لیے میں خود کو اس سے کرا ہت کرتے ہو ئے پاتا ہوں۔" حضرت خالد (بن ولید) رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اس کو (اپنی طرف) کھینچا اور کھا لیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اپنی خالہ) حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر گئے، تو آپ کے پاس بھنی ہوئی ضب لائی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، تو حضرت میمونہ کے گھر موجود بعض عورتوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو، آپ کیا کھانا چاہ رہے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھالیا، میں نے پوچھا، کیا وہ حرام ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ میری قوم کی سرزمین (کی خوراک) نہیں، اس لیے میں اس سے کراہت محسوس کرتا ہوں۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو میں نے اس کو کھینچ کر کھالیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1945

   صحيح البخاري5389عبد الله بن عباسلو كن حراما ما أكلن على مائدة النبي ولا أمر بأكلهن
   صحيح البخاري7358عبد الله بن عباسلو كن حراما ما أكلن على مائدته ولا أمر بأكلهن
   صحيح البخاري5402عبد الله بن عباسوضع الضب على مائدته فلو كان حراما لم يوضع وشرب اللبن وأكل الأقط
   صحيح مسلم5034عبد الله بن عباسلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   صحيح مسلم5040عبد الله بن عباسحم لم آكله قط وقال لهم كلوا قالت ميمونة لا آكل من شيء إلا شيء يأكل منه رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7358  
´دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی؟`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ أُمَّ حُفَيْدٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ حَزْنٍ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، فَدَعَا بِهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، فَتَرَكَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالْمُتَقَذِّرِ لَهُنَّ، وَلَوْ كُنَّ حَرَامًا مَا أُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں قبول فرما لیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (سانڈے کو) ہاتھ نہیں لگایا، جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر وہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھایا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7358]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7358 کا باب: «بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرِهَا:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے کئی اہم مسائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے، چنانچہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«هذا الباب متعلق بتعليم طريقة الإجتهاد، و قد تكون معرفة الأحكام من عموم النص، و دلالة النص، و غيرها من أنواع الدلائيل المذكورة فى أصول الفقة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 244/5]
یہ باب طریقہ اجتہاد کی تعلیم پر مبنی ہے تاکہ احکام کی معرفت عموم نص سے، دلالۃ النص سے اور اس کے سوا دیگر دلائل کی انواع سے حاصل ہوں، جو اصول فقہ میں مذکور ہیں۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب کتاب الاعتصام میں اس غرض سے قائم فرمایا اور اسی طرح سے مختلف قسم کے ابواب باندھے تاکہ ان ابواب کے ذریعہ دوضروری چیزوں کی طرف اشارہ ہو جائے اہل اصول کو، اول یہ کہ اصول شریعہ چار اقسام پر ہیں، «الكتاب، و السنة، و الإجماع، و القياس» اور دوسرا اصول یہ ہے کہ «عبارة النص، إشارة النص» اور اس کا اقتضاء کی طرف اشارہ ہو، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«أن الإمام البخاري قد أشار فى كتاب الاعتصام بتراجم عديدة إلى مسائل الأصول كما ترى، فهكذا أشار لهذه الترجمة إلى أمرين قد نبه عليهما أصحاب الأصول، الأول: ما قالوا ان أصول الشرع أربعة: الكتاب، و السنة، و الاجماع، و القياس، وأشار إلى هذه الأربعة بقوله: التى تعرف بالدلائل . . . . . و الأمر الثاني، هو ما ذكروه من تقسيم الاستدلال من الكتاب و السنة إلى أقسام عديدة معروفة عندهم من عبارة النص، و إشارته و دلالته و اقتضائه، فأشار إلى هذا الأمر الثاني بقوله، و كيف معنى الدلالة.» [الابواب و التراجم: 767/6]
ان معلومات سے واضح ہوا کہ باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کی کئی ایک اغراض ہیں، جنہیں آپ رحمہ اللہ نے تحت الباب احادیث کے ذریعے حل فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عرض بھی کرتے چلیں کہ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے حجت شرعیہ کو چار چیزوں میں تقسیم کیا ہے جس کا ذکر سابقہ سطروں میں گزرا، تین چیزیں: کتاب و سنت اور اجماع، یہ حجت حجت ہیں مگر قیاس شرعی اصولوں کی بناء پر حجت نہیں ہے بلکہ ہم اسے حجت مظہرہ کہہ سکتے ہیں یعنی مجتہد جس میں دین نہیں ہو گا۔ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہو گی کہ پہلی حدیث جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے اس کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بدلالت عقل سے سمجھ گئیں کہ کپڑے سے وضو نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس مسئلے پر دال نہیں تھے، لہٰذا لفظ «توضأ» سے وہ خاتون نے کچھ اور مراد لیا مگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ اس سے مراد آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ اس کپڑے کو بدن پر پھیر کر پاکی حاصل کر لے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و مطابقة الحديث للترجمة فى قوله توضئي بها فإنه وقع بيانه للسائلة بما فهمته عائشة رضي الله عنها و أقرها النبى صلى الله عليه وسلم على ذالك لأن السائلة لم تكن تعرف أن تتبع الدم بالفرصة يسمي توضوا فلما فهمت عائشة غرضه بينت للسائلة ما خفي عليها . . . . .» [ارشاد الساري: 109/12]
دوسری حدیث جو ام حفید بنت الحارث ابن حزن سے مروی ہے اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ساہنہ کو کھا رہے تھے اور لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر حرام چیز کا ہونا ناممکن ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلالت شرعیہ کی مثال دی کہ جب ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر دوسرے لوگوں نے کھایا تو معلوم ہوا کہ وہ حلال ہے، لہٰذا یہ حدیث باب کے اس جزء «الأحكام التى تعرف بالدلائل» سے مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا اور ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر رکھا گیا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز سے نہ روکنا یہ بھی احکام شرعیہ میں حجت ہیں اور اسی طرح حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھ لیا اور پہچان لیا تو اس حدیث کی مناسبت بھی اسی جہت سے ہو گی، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔

نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔ [حصول المامول من علم الاصول: ص 59]
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .» [الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2]
میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔
بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 308   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.