الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
28. باب كَيْفَ الأَذَانُ
28. باب: اذان کس طرح دی جائے؟
Chapter: How The Adhan Is Performed.
حدیث نمبر: 507
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، عن ابي داود. ح وحدثنا نصر بن المهاجر، حدثنا يزيد بن هارون، عن المسعودي، عن عمرو بن مرة، عن ابن ابي ليلى، عن معاذ بن جبل، قال: احيلت الصلاة ثلاثة احوال، واحيل الصيام ثلاثة احوال، وساق نصر الحديث بطوله، واقتص ابن المثنى منه قصة صلاتهم نحو بيت المقدس قط، قال: الحال الثالث" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة فصلى يعني نحو بيت المقدس ثلاثة عشر شهرا، فانزل الله تعالى هذه الآية: قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره سورة البقرة آية 144، فوجهه الله تعالى إلى الكعبة، وتم حديثه، وسمى نصر صاحب الرؤيا، قال: فجاء عبد الله بن زيد رجل من الانصار، وقال فيه: فاستقبل القبلة، قال: الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة مرتين، حي على الفلاح مرتين، الله اكبر الله اكبر، لا إله إلا الله، ثم امهل هنية ثم قام، فقال مثلها، إلا انه، قال: زاد بعد ما قال حي على الفلاح: قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقنها بلالا، فاذن بها بلال، وقال في الصوم: قال: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم ثلاثة ايام من كل شهر ويصوم يوم عاشوراء، فانزل الله تعالى كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم إلى قوله طعام مسكين سورة البقرة آية 183 ـ 184، فكان من شاء ان يصوم صام، ومن شاء ان يفطر ويطعم كل يوم مسكينا اجزاه ذلك وهذا حول، فانزل الله تعالى: شهر رمضان الذي انزل فيه القرءان إلى ايام اخر سورة البقرة آية 185 فثبت الصيام على من شهد الشهر، وعلى المسافر ان يقضي، وثبت الطعام للشيخ الكبير والعجوز اللذين لا يستطيعان الصوم، وجاء صرمة وقد عمل يومه"، وساق الحديث.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي دَاوُدَ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، وَأُحِيلَ الصِّيَامُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، وَسَاقَ نَصْرٌ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَاقْتَصَّ ابْنُ الْمُثَنَّى مِنْهُ قِصَّةَ صَلَاتِهِمْ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَطْ، قَالَ: الْحَالُ الثَّالِثُ" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى يَعْنِي نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ سورة البقرة آية 144، فَوَجَّهَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى الْكَعْبَةِ، وَتَمَّ حَدِيثُهُ، وَسَمَّى نَصْرٌ صَاحِبَ الرُّؤْيَا، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَقَالَ فِيهِ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ مَرَّتَيْنِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ مَرَّتَيْنِ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ أَمْهَلَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ مِثْلَهَا، إِلَّا أَنَّهُ، قَالَ: زَادَ بَعْدَ مَا قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقِّنْهَا بِلَالًا، فَأَذَّنَ بِهَا بِلَالٌ، وقَالَ فِي الصَّوْمِ: قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَيَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَى قَوْلِهِ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 183 ـ 184، فَكَانَ مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُفْطِرَ وَيُطْعِمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا أَجْزَأَهُ ذَلِكَ وَهَذَا حَوْلٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْءَانُ إِلَى أَيَّامٍ أُخَرَ سورة البقرة آية 185 فَثَبَتَ الصِّيَامُ عَلَى مَنْ شَهِدَ الشَّهْرَ، وَعَلَى الْمُسَافِرِ أَنْ يَقْضِيَ، وَثَبَتَ الطَّعَامُ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ اللَّذَيْنِ لَا يَسْتَطِيعَانِ الصَّوْمَ، وَجَاءَ صِرْمَةُ وَقَدْ عَمِلَ يَوْمَهُ"، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پوری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) تیرہ مہینے تک نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره» ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہو گئی اور نصر نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آئے۔ اس میں یوں ہے کہ: پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة» دوبار، «حى على الفلاح» دوبار، «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح (تکبیر) کہی، مگر اس میں انہوں نے: «حى على الفلاح» کے بعد «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کا اضافہ کیا۔ راوی کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم بلال کو یہ الفاظ سکھلا دو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے روزے کے بارے میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم» اللہ تعالیٰ کے قول: «طَعَامُ مسكين» تک ۲؎، تو اب جو چاہتا روزے رکھتا، اور جو چاہتا نہ رکھتا، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: «شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن» اپنے قول: «أيام أخر» تک ۳؎، پھر روزہ ہر اس شخص پر فرض ہو گیا جو ماہ رمضان کو پائے، اور مسافر پر قضاء کرنا، اور بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا باقی رہا۔ پھر صرمہ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11344، 15627، 18972) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ہم آپ کا چہرہ باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر رہے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں، اور مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی رہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف پھیرے رکھو (سورۃ البقرۃ:۱۴۴)
۲؎: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کر دیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، یہ گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں (سورۃ البقرۃ:۱۸۴)
۳؎: ماہ رمضان ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے، اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کی واضح نشانیاں ہیں، لہٰذا جو تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے گنتی پوری کرے (سورۃ البقرۃ:۱۸۴-۱۸۵)

Narrated Muadh ibn Jabal: Prayer passed through three stages and fasting also passed through three stages. The narrator Nasr reported the rest of the tradition completely. The narrator, Ibn al-Muthanna, narrated the story of saying prayer facing in the direction of Jerusalem. He said: The third stage is that the Messenger of Allah ﷺ came to Madina and prayed, i. e. facing Jerusalem, for thirteen months. Then Allah, the Exalted, revealed the verse: "We have seen thee turning thy face to Heaven (for guidance, O Muhammad). And now verily We shall make thee turn (in prayer) toward a qiblah which is dear to thee. So turn thy face toward the Inviolable Place of Worship, and ye (O Muslims), wherever ye may be, turn your face (when ye pray) toward it" (ii. 144). And Allah, the Reverend and the Majestic, turned (them) towards the Kabah. He (the narrator) completed his tradition. The narrator, Nasr, mentioned the name of the person who had the dream, saying: And Abdullah ibn Zayd, a man from the Ansar, came. The same version reads: And he turned his face towards the qiblah and said: Allah is most great, Allah is most great; I testify that there is no god but Allah, I testify that there is no god but Allah; I testify that Muhammad is the Messenger of Allah, I testify that Muhammad is the Messenger of Allah; come to prayer (he pronounced it twice), come to salvation (he pronounced it twice); Allah is Most Great, Allah is most great. He then paused for a while, and then got up and pronounced in a similar way, except that after the phrase "Come to salvation" he added. "The time for prayer has come, the time for prayer has come. " The Messenger of Allah ﷺ said: Teach it to Bilal, then pronounce the adhan (call to prayer) with the same words. As regards fasting, he said: The Messenger of Allah ﷺ used to fast for three days every month, and would fast on the tenth of Muharram. Then Allah, the Exalted, revealed the verse: ". . . . . . . Fasting was prescribed for those before you, that ye may ward off (evil). . . . . . and for those who can afford it there is a ransom: the feeding of a man in need (ii. 183-84). If someone wished to keep the fast, he would keep the fast; if someone wished to abandon the fast, he would feed an indigent every day; it would do for him. But this was changed. Allah, the Exalted, revealed: "The month of Ramadan in which was revealed the Quran. . . . . . . . . . (let him fast the same) number of other days" (ii. 185). Hence the fast was prescribed for the one who was present in the month (of Ramadan) and the traveller was required to atone (for them); feeding (the indigent) was prescribed for the old man and woman who were unable to fast. (The narrator, Nasr, further reported): The companion Sirmah, came after finishing his day's work. . . . . . and he narrated the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 507


قال الشيخ الألباني: صحيح بتربيع التكبير في أوله

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الرحمٰن بن أبي ليلي لم يسمع من معاذ بن جبل رضي اللّٰه عنه،انظر سنن الترمذي (3452)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32

   سنن أبي داود507معاذ بن جبلقدم المدينة فصلى يعني نحو بيت المقدس ثلاثة عشر شهرا فأنزل الله هذه الآية قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 507  
´اذان کس طرح دی جائے؟`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پوری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) تیرہ مہینے تک نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره» ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہو گئی اور نصر نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آئے۔ اس میں یوں ہے کہ: پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة» دوبار، «حى على الفلاح» دوبار، «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح (تکبیر) کہی، مگر اس میں انہوں نے: «حى على الفلاح» کے بعد «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کا اضافہ کیا۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم بلال کو یہ الفاظ سکھلا دو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے روزے کے بارے میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم» اللہ تعالیٰ کے قول: «طَعَامُ مسكين» تک ۲؎، تو اب جو چاہتا روزے رکھتا، اور جو چاہتا نہ رکھتا، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: «شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن» اپنے قول: «أيام أخر» تک ۳؎، پھر روزہ ہر اس شخص پر فرض ہو گیا جو ماہ رمضان کو پائے، اور مسافر پر قضاء کرنا، اور بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا باقی رہا۔ پھر صرمہ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 507]
507۔ اردو حاشیہ:
حضرت صرمہ کا قصہ مسند احمد 5/246۔ 247 میں یوں ہے۔ ایک صحابی جن کا نام صرمہ تھا۔ سارا دن روزے کی حالت میں کام کرتے رہے۔ جب شام ہوئی تو اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ اور کچھ کھائے پیئے بغیر نماز عشاء پڑھ کر سو گئے۔ حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور روزہ رکھ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ ازحد نڈھال تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس قدر نڈھال ہو رہے ہو۔؟ انہوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں کل سارا دن کام کرتا رہا۔ جب واپس آیا تو بس اپنے آپ کو ڈال دیا۔ اور سو گیا اور صبح ہو گئی۔ تو اس طرح روزہ رکھ لیا۔ راوی نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی کچھ سو لینے کے بعد اپنی کسی بیوی یا لونڈی کے پاس آئے۔۔۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قصہ بتایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ» تمہارے لئے حلال ہے کہ تم روزے کی رات میں اپنی بیویوں سے ہم بستر ہو سکتے ہو۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے۔ تو اس نے معاف کیا اور درگزر کیا۔ سو مباشرت کرو اپنی عورتوں سے اور جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اسے طلب کرو۔ اور کھاؤ پیو حتیٰ کے صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے نمایاں نظرآنے لگے۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ عون المبعود ملحوظه۔ حديث 506 اور 5067 کو ہمارے فاضل شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ان کے بعض شواہد حدیث میں موجود ہیں۔ غالباً انہیں شواہد کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں حدیثوں کی تصیح کی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: الموسوعة الحدیثیة۔ 436/36، 442۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 507   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.