الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
47. بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:
47. باب: پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کرنا۔
(47) Chapter. (What is said regarding) the meaning of the cancelling of the engagement.
حدیث نمبر: 5145
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، انه سمع عبد الله بن عمر رضي الله عنهما يحدث،" ان عمر بن الخطاب حين تايمت حفصة، قال عمر: لقيت ابا بكر، فقلت: إن شئت انكحتك حفصة بنت عمر، فلبثت ليالي، ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلقيني ابو بكر، فقال: إنه لم يمنعني ان ارجع إليك فيما عرضت إلا اني قد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها فلم اكن لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولو تركها لقبلتها". تابعه يونس، وموسى بن عقبة، وابن ابي عتيق، عن الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ، قَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا". تَابَعَهُ يُونُسُ، وَمُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زھری نے، کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو یونس بن یزید اور موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن ابی عتیق نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: "When Hafsa became a widow," `Umar said, "I met Abu Bakr and said to him, 'If you wish I will marry Hafsa bint `Umar to you.' I waited for a few days then Allah's Apostle asked for her hand. Later Abu Bakr met me and said, 'Nothing stopped me from returning to you concerning your offer except that I knew that Allah's Apostle had mentioned (his wish to marry) her, and I could never let out the secret of Allah's Apostle . If he had left her, I would have accepted her.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 75


   صحيح البخاري4005عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5145عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5122عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3261عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3250عبد الله بن عمرخطبها إلي رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال سمعت رسول الله يذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5145  
´پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کرنا`
«. . . أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ، قَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا . . .»
. . . سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5145]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5145 کا باب: «بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب سے خطبہ ترک کرنے کی تفسیر کو واضح کر رہے ہیں اور تحت الباب ام المومنیں حفصہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ کو پیش فرماتے ہیں، حالانکہ تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا جا رہا ہے وہ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ تحت الباب حدیث میں خطبہ ترک کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

چنانچہ ابن بطال اس اعتراض کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«تقدم فى الباب الذى قبله تفسير ترك الخطبة صريحا فى قوله: حتى ينكح او يترك وحديث عمر فى قصة حفصه رضي الله عنها لا يظهر منه تفسير ترك الخطبة لأن عمر لم يكن علم أن النبى صلى الله عليه وسلم خطب حفصه، قال: ولكنة قصد معنى دقيقاً يدل على ثقوب ذهنة ورسوخه الاستنباط.» [فتح الباري لابن حجر: 172/10]
یعنی بظاہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس واقعہ کی کوئی مناسبت ترجمۃ الباب سے معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس واقعہ میں خطبہ ترک کرنے کی کوئی تفسیر معلوم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اس بات کے تحت ذکر کر کے ایک لطیف اور دقیق استنباط فرمایا ہے اور وہ یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام بھیجیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو رد نہیں کریں گے۔
لہٰذا ابن بطال رحمہ اللہ کی مطابقت سے سے ترجمہ الباب اور حدیث میں بہترین مناسبت قائم ہو جاتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ کی اس مناسبت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وما ابداه ابن بطال ادق وأولي»
یعنی ابن بطال کا قول دقیق اور اولیٰ ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب مذکورہ واقعہ ذکر کر کے «خطبه على الخطبه» کی مطلقاً ممانعت بیان فرمائی ہے، کیونکہ مذکورہ واقعہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار فرما دیا تھا، حالانکہ خاطب اور ولی کے مابین ابھی بات طے نہیں ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا گیا تھا ابھی صرف ارادہ اور خیال تھا تو جس صورت میں پیغام نکاح بھیج دیا گیا ہو اس میں بطریق اولیٰ خطبہ نہیں بھیجنا چاہیے۔ [المتواري: ص291]
اسی مفہوم کے قریب قریب مطابقت ابن الملقن نے بھی دی ہے۔ [التوضيح: 443/24]

محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«أن الامام البخاري اشاره أن اراده الرجل الخطبة أيضاً داخل فى الخطبة، لأن ابابكر امتنع عن الخطبة لعلمه إرداة صلى الله عليه وسلم الخطبة، مع أنه صلى الله عليه وسلم لم يخطب بعد، واذا كانت إراداة الخطبة فى حكم الخطبة فترك الإراداة تركها، فطابق الحديث بالترجمة.» [الابواب و التراجم: 218/5]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب آدمی کا خطبہ کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ارادہ خطبہ میں دخل ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے، خطبہ سے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کو جانتے تھے، جبکہ ارادہ خطبہ، خطبہ میں داخل ہے۔ پس انہوں نے اپنے خطبہ کے ارادے کو ترک کر دیا پس یہیں سے مطابقت ہے ترجمۃ الباب سے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقته للترجمه تؤخذ من قوله فلقيني ابوبكر الى اخره، فان فيه اعتزار أبى بكر لعمر عن ترك خطبة واجابته لعمر لعلمه بأنه صلى الله عليه وسلم يريد خطبتها وهذا تفسير من ابي بكر لترك الخطبة.» [عمدة القاري للعيني: 185/20]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں الفاظ ہیں، «فلقيني ابوبكر» پس ان الفاظوں میں عذر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، پس یہ تفسیر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کی۔

شارحین کے اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، پس یہی تفسیر خطبہ ہے اور یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5145  
5145. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:۔۔۔ جب سیدہ حفصہ‬ ؓ ب‬یوہ ہو گئیں تو۔۔ سیدنا عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ میں کئی راتیں آپ کی طرف سے جواب کے انتظار میں رہا، اس دوران رسول اللہ ﷺ نے حفصہ‬ ؓ س‬ے پیغام دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے: بلاشبہ تمہاری پیش کش کے جواب میں کوئی چیز حائل نہ تھی سوائے اس کے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے متعلق علم تھا كہ آپ ایک مرتبہ کہ آپ ایک مرتبہ سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ا ذکر فرما رہے تھے، اور میں آپ کے راز کو افشا نہیں کرنا چاہتا تھا اگر آپ ﷺ چھوڑ دیتے تو میں آپ کی پیش کش قبول کر لیتا یونس موسٰی بن عقبہ اور ابن ابی عتیق نے زہری سے روایت کرنے میں شعیب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5145]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کر دی یہی باب کا مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5145   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5145  
5145. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:۔۔۔ جب سیدہ حفصہ‬ ؓ ب‬یوہ ہو گئیں تو۔۔ سیدنا عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ میں کئی راتیں آپ کی طرف سے جواب کے انتظار میں رہا، اس دوران رسول اللہ ﷺ نے حفصہ‬ ؓ س‬ے پیغام دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے: بلاشبہ تمہاری پیش کش کے جواب میں کوئی چیز حائل نہ تھی سوائے اس کے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے متعلق علم تھا كہ آپ ایک مرتبہ کہ آپ ایک مرتبہ سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ا ذکر فرما رہے تھے، اور میں آپ کے راز کو افشا نہیں کرنا چاہتا تھا اگر آپ ﷺ چھوڑ دیتے تو میں آپ کی پیش کش قبول کر لیتا یونس موسٰی بن عقبہ اور ابن ابی عتیق نے زہری سے روایت کرنے میں شعیب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5145]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیش کش قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کی ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کرنا چاہتے تھے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجحان اور جھکاؤ معلوم ہو گیا تھا، اس لیے ان کی پیش کش کو قبول کرنا جائز نہ تھا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کی رضامندی معلوم ہو جائے تو ایسے حالات میں بھی منگنی نہیں کرنی چاہیے، ہاں جب کسی کے وہم و گمان میں بھی کوئی جھکاؤ نہ ہو تو ایسے حالات میں منگنی کی جا سکتی ہے۔
(3)
ترک خِطبہ کی تفسیر پہلے عنوان سے ہو چکی ہے، اس عنوان سے مراد معذرت خواہی ہے اور ترک خِطبہ کی وجہ بیان کرنا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رشتہ قبول نہ کرنے کی معذرت کی تھی۔
والله اعلم (فتح الباري: 252/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5145   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.