الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لباس اور زینت کے احکام
The Book of Clothes and Adornment
28. باب كَرَاهَةِ قِلاَدَةِ الْوَتَرِ فِي رَقَبَةِ الْبَعِيرِ:
28. باب: تانت کا ہار اونٹ کے گلے میں ڈالنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 5549
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن عباد بن تميم ، ان ابا بشير الانصاري اخبره، انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، قال: فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن ابي بكر: حسبت انه، قال: " والناس في مبيتهم لا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت "، قال مالك: ارى ذلك من العين.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: حَسِبْتُ أَنَّهُ، قَالَ: " وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ لَا يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلَادَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ "، قَالَ مَالِكٌ: أُرَى ذَلِكَ مِنَ الْعَيْنِ.
امام مالک نے عبد اللہ بن ابی بکر سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے روایت کی کہ حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے انھیں بتا یا کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کو بھیجا۔عبد اللہ ابو بکر نے کہا: میرا گمان ہے کہ انھوں نے کہا: لو گ اپنی اپنی سونے کی جگہ میں پہنچ چکے تھے۔ (اور حکم دیا): "کسیاونٹ کی گردن میں تانت (کمان کے دونوں سرے جوڑے نے والی مضبوط باریک چمڑے کی ڈوری) کا ہا ر۔یا کوئی بھی ہار۔نہ چھوڑ اجا ئے مگر اسے کاٹ دیا جا ئے۔" امام مالک نے فرما یا: " میراخیال ہے کہ یہ (ہار) نظر بد سے بچانے کے لیے (گلے میں ڈالے جا تے) تھے۔
حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کسی سفر میں شریک تھے تو آپ نے ایک ایلچی روانہ کیا، عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے خیال میں انہوں نے کہا، جبکہ لوگ اپنی آرام گاہ میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی ہار باقی نہ رہے، مگر اسے کاٹ دیا جائے۔ امام مالک کہتے ہیں، میرا خیال ہے، لوگ اس کو بدنظری کا علاج سمجھتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2115

   صحيح البخاري3005قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   صحيح مسلم5549قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   سنن أبي داود2552قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم432قيس بن عبيدا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 432  
´نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے`
«. . . 307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت. قال مالك: أرى ذلك من العين. . . .»
. . . سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 432]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3005، ومسلم 2115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دھاگے منکے وغیرہ لٹکا کر یہ سمجھنا کہ بیماری نہیں لگے گی یا نظر بد سے بچاؤ ہوجائے گا، جائز نہیں ہے مگر قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 351/9 وسنده صحيح] لیکن بہتر یہی ہے کہ ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔
◄ ابرہیم نخعی رحمہ اللہ بچوں کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہونے کی وجہ سے تعویذ مکروہ سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 376/7 ح 23466 وسنده صحيح، دوسرا نسخه 16/8 ح 23823،]
➋ اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قرآن لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہر شئے (علاج کے لئے لکھ کر) لٹکانا مکروہ ہے۔ [ديكهئے مسائل اسحاق و احمد ج 1 ص 193 فقره 382، التمهيد 164/17] ۔ راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے لیکن سدِ ذرائع کے طور پر یہ تعویذ بھی نہیں پہننے چاہئیں۔
➌ شبہات والی اور مشکوک چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
➍ نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5740 و صحيح مسلم 2187] لیکن اس کا علاج تعویذ گنڈے نہیں بلکہ مسنون دعائیں ہیں۔ مثلاً «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» والی دعا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3371]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 307   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2552  
´گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔`
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2552]
فوائد ومسائل:
علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ امام مالک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے نظر بد سے بچائو کےلئے بطور تعویذ ڈالتے تھے۔
اور اسے ہی موثر سمجھتے تھے۔
کئی علماء کا خیال ہے کہ لوگ یہ ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھنے کے لئے ڈالتے تھے۔
کچھ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ دوڑتے بھاگتے ہوئے جانور کا گلا گھٹ جائے۔
بہر حال وجہ کوئی بھی ہو تانت ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور اسی طرح دیگر جاہلانہ تعویز گنڈے بھی ڈالنا جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2552   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5549  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جاہلیت کے دور میں لوگ حیوانات خاص کر اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار ڈالتے تھے اور سمجھتے تھے،
اس میں نظر بد سے بچانے کا خاصہ ہے،
اس لیے آپﷺ نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا کہ اس کا نظر بد سے بچانے میں کوئی دخل نہیں،
بعض حضرات کا خیال ہے،
یہ حیوان کے لیے تکلیف کا باعث ہے،
اس سے چرنے اور سانس لینے میں دقت پیدا ہوتی ہے،
کسی درخت میں پھنس کر گھٹنے کا بھی اندیشہ ہے اور بعض کا خیال ہے،
اس میں گھنٹی باندھتے تھے،
اگر ہار کھلا ہو،
کسی قسم کا اندیشہ نہ ہو،
محض زیب و زینت کے لیے ہو تو بقول امام نووی جائز ہے اور بقول علامہ عینی اگر یہ تعویذ کے لیے ہو اور اس میں قرآن کی آیت ہو،
یا اللہ کا نام ہو،
جس کا مقصد برکت حاصل کرنا یا اللہ کے اسماء اور اس کے ذکر کی پناہ لینا ہو تو ممنوع نہیں ہے،
اس طرح اگر تکسیر اور اسراف سے بچ کر زینت کے لیے ہو تو پھر بھی ممنوع نہیں۔
(عمدۃ القاری ج 7 ص 43)
مگر ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی آیات یا اسماء الٰہی کو جانوروں کے گلے میں نہیں ڈالا تو ہمیں بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5549   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.