الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
The Book of Patients
14. بَابُ مَا يُقَالُ لِلْمَرِيضِ وَمَا يُجِيبُ:
14. باب: عیادت کے وقت مریض سے کیا کہا جائے اور مریض کیا جواب دے۔
(14) Chapter. What (a visitor) should say to a patient and what should be the answer of the patient.
حدیث نمبر: 5662
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على رجل يعوده، فقال: لا باس طهور إن شاء الله، فقال: كلا بل حمى تفور على شيخ كبير، كيما تزيره القبور، قال: النبي صلى الله عليه وسلم، فنعم إذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى رَجُلٍ يَعُودُهُ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ: كَلَّا بَلْ حُمَّى تَفُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ، كَيْمَا تُزِيرَهُ الْقُبُورَ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَعَمْ إِذًا".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا «لا بأس طهور إن شاء الله» کہ کوئی فکر نہیں اگر اللہ نے چاہا (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ چکا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر ہی رہے گا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہو گا۔

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle entered upon sick man to pay him a visit, and said to him, "Don't worry, Allah willing, (your sickness will be) an expiation for your sins." The man said, "No, it is but a fever that is boiling within an old man and will send him to his grave." On that, the Prophet said, "Then yes, it is so."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 566


   صحيح البخاري5662عبد الله بن عباسلا بأس طهور إن شاء الله فقال كلا بل حمى تفور على شيخ كبير كيما تزيره القبور قال النبي فنعم إذا
   صحيح البخاري5656عبد الله بن عباسلا بأس طهور إن شاء الله قال قلت طهور كلا بل هي حمى تفور أو تثور على شيخ كبير تزيره القبور فقال النبي فنعم إذا
   صحيح البخاري7470عبد الله بن عباسلا بأس عليك طهور إن شاء الله قال قال الأعرابي طهور بل هي حمى تفور على شيخ كبير تزيره القبور قال النبي فنعم إذا
   صحيح البخاري3616عبد الله بن عباسلا بأس طهور إن شاء الله فقال له لا بأس طهور إن شاء الله قال قلت طهور كلا بل هي حمى تفور أو تثور على شيخ كبير تزيره القبور فقال النبي فنعم إذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3616  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3616]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں علامات نبوت پر اشارہ فرمایا اور نبوت کے دلائل پر روشنی ڈالی، مگر حدیث جو پیش فرمائی اس میں بظاہر کوئی بھی ایسی نبوت کی خاص نشانی نظر نہیں آتی جس حدیث کا ترجمتہ الباب سے تعلق بنتا ہو، ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخوله فى هذا الباب: اٴن فى بعض طرقة زيادة تقتضي ايراده فى علامات النبوة، وهى قوله صلى الله عليه وسلم اما اذا أبيت فهي كما تقول، قضاء (الله) كائن فما أمسي من الغد ألا ميتا وبهذه الزيادة يظهر دخول هذا الحديث فى هذا الباب .» [فتح الباري لابن حجر: 521/7]
یعنی ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس کے بعد طرق میں علامات نبوت کی نشانی ہے۔ (اس کا بعض طرق) جیسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس کے آخری الفاظ یوں ہیں، «فما أمسي من الغد الا ميتا» پس وہ دوسرے روز مر گیا۔ لہٰذا ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لہٰذا یہی سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله: فنعم اذا فذالك من حيث ان الاعرابي لما رد على النبى صلى الله عليه وسلم قوله: لا بأس طهور ان شاءالله مات على وفق ما قاله صلى الله عليه وسلم، وهذا معجزاته صلى الله عليه وسلم .» [عمدة القاري للعيني: 149/16]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ان الفاظ سے مطابقت لی جائے گی، اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے فرمایا، «لا باس طهور انشاءالله» تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کا رد کیا تو پھر وہ اسی طرح سے مرا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، (اس کی موت کی پیشن گوئی کا)۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے مطابق باب اور حدیث میں مناسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ پیشن گوئی کرنا یہ نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی چیز کو ظاہر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 37   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5662  
5662. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا: فکر کی کوئی بات نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہوگی۔ اس نے کہا: ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو بوڑھے پر جوش مار رہا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچائے، نبی ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5662]
حدیث حاشیہ:
بوڑھے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پر یقین کرنا ضروری تھا مگر اس کی زبان سے برعکس لفظ نکلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مایوسی دیکھ کرفرما دیا کہ پھر تیرے خیال کے مطابق ہی ہوگا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کی موت آ گئی، ناامیدی ہر حال میں کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ناامیدی سے بچائے، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5662   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5662  
5662. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا: فکر کی کوئی بات نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہوگی۔ اس نے کہا: ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو بوڑھے پر جوش مار رہا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچائے، نبی ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5662]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوڑھے کو تسلی دی اور اس میں اس کے لیے بشارت بھی تھی کہ بیماری سے شفا ہو گی، اگر شفا نہ ملی تو گناہوں کا کفارہ تو ضرور ہو گی لیکن اس نے مایوسی کے عالم میں اس کے برعکس الفاظ زبان سے نکالے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پھر تیرے خیال کے مطابق ہی ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگلے دن اس کی موت واقع ہو گئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5662   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.