الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
26. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ»:
26. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے سردار کو لینے کے لیے اٹھو۔
(26) Chapter. The statement of the Prophet: “Get up for your chief!”
حدیث نمبر: 6262
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف، عن ابي سعيد، ان اهل قريظة نزلوا على حكم سعد، فارسل النبي صلى الله عليه وسلم إليه، فجاء فقال:" قوموا إلى سيدكم، او قال خيركم"، فقعد عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هؤلاء نزلوا على حكمك"، قال: فإني احكم ان تقتل مقاتلتهم وتسبى ذراريهم، فقال:" لقد حكمت بما حكم به الملك"، قال ابو عبد الله: افهمني بعض اصحابي، عن ابي الوليد من قول ابي سعيد إلى حكمك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ أَهْلَ قُرَيْظَةَ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، فَجَاءَ فَقَالَ:" قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ، أَوْ قَالَ خَيْرِكُمْ"، فَقَعَدَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ"، قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ، فَقَالَ:" لَقَدْ حَكَمْتَ بِمَا حَكَمَ بِهِ الْمَلِكُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَفْهَمَنِي بَعْضُ أَصْحَابِي، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ مِنْ قَوْلِ أَبِي سَعِيدٍ إِلَى حُكْمِكَ.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے سعد بن ابراہیم نے ان سے ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ قریظہ کے یہودی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث بنانے پر تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا جب وہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کو اٹھو یا یوں فرمایا کہ اپنے میں سب سے بہتر کو لینے کے لیے اٹھو۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے لوگ تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر (قلعہ سے) اتر آئے ہیں (اب تم کیا فیصلہ کرتے ہو)۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے وہی فیصلہ فرمایا جس فیصلہ کو فرشتہ لے کر آیا تھا۔ ابوعبداللہ (مصنف) نے بیان کیا کہ مجھے میرے بعض اصحاب نے ابوالولید کے واسطہ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ کا قول ( «على» کے بجائے بصلہ «إلى حكمك‏.‏» نقل کیا ہے۔

Narrated Abu Sa`id: The people of (the tribe of) Quraiza agreed upon to accept the verdict of Sa`d. The Prophet sent for him (Sa`d) and he came. The Prophet said (to those people), "Get up for your chief or the best among you!" Sa`d sat beside the Prophet and the Prophet said (to him), "These people have agreed to accept your verdict." Sa`d said, "So I give my judgment that their warriors should be killed and their women and children should be taken as captives." The Prophet said, "You have judged according to the King's (Allah's) judgment." (See Hadith No. 447, Vol. 5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 278


   صحيح البخاري4121سعد بن مالكهؤلاء نزلوا على حكمك فقال تقتل مقاتلتهم وتسبي ذراريهم قال قضيت بحكم الله وربما قال بحكم الملك
   صحيح البخاري3804سعد بن مالكيا سعد إن هؤلاء نزلوا على حكمك قال فإني أحكم فيهم أن تقتل مقاتلتهم وتسبى ذراريهم حكمت بحكم الله أو بحكم الملك
   صحيح البخاري3043سعد بن مالكهؤلاء نزلوا على حكمك قال فإني أحكم أن تقتل المقاتلة وأن تسبى الذرية قال لقد حكمت فيهم بحكم الملك
   صحيح البخاري6262سعد بن مالكقوموا إلى سيدكم فقعد عند النبي فقال هؤلاء نزلوا على حكمك قال فإني أحكم أن تقتل مقاتلتهم وتسبى ذراريهم فقال لقد حكمت بما حكم به الملك
   صحيح مسلم4596سعد بن مالكقوموا إلى سيدكم ثم قال إن هؤلاء نزلوا على حكمك قال تقتل مقاتلتهم وتسبي ذريتهم قال فقال النبي قضيت بحكم الله وربما قال قضيت بحكم الملك
   سنن أبي داود5215سعد بن مالكقوموا إلى سيدكم فجاء حتى قعد إلى رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6262  
6262. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6262]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے کہا میرے بعض ساتھیوں نے ابو الولید سے یوں نقل کیا ہے إلی حکمك یعنی بجائے علی حکمك کے ابوسعید خدری نے یوں ہی کہا بجائے علی کے إلی نقل کیا ہے حق یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ زخمی تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سواری سے اتارو اور تعظیم کے لئے کھڑا ہونا منع ہے دوسری حدیث میں ہے کہ ''لاتقومو اکما یَقُومُ الأَعَاجِمُ'' جیسے عجمی لوگ اپنے بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6262  
6262. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6262]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلۂ اوس کے سردار تھے اور یہ قبیلۂ بنو قریظہ کا حلیف تھا جبکہ انصار کا دوسرا قبیلہ خزرج بنو نضیر کا حلیف تھا۔
چونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے حلیف تھے، اس لیے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ثالث بنایا۔
(2)
غزوۂ احزاب میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، اس لیے وہ گدھے پر سوار ہو کر فیصلہ کرنے کے لیے آئے۔
ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ اور انھیں آرام کے ساتھ سواری سے اتارو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں کسی کی آمد پر احترامًا کھڑے ہونے کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق قیام، یعنی کھڑے ہونے کی تین قسمیں ہیں:
٭قیالہ:
کوئی بڑا آدمی آئے اور بیٹھے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں، پھر جب وہ اجازت دے یا خود بیٹھ جائے تو دوسرے بیٹھیں۔
اس قسم کی تعظیم بجا لانا ایک عجمی انداز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حدیث میں ہے:
جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے سراپا کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
(جامع الترمذی، الاستیذان، حدیث: 2755)
٭قیام علیہ:
بڑا آدمی بیٹھا ہوا ہو اور لوگ داست بستہ، یعنی ہاتھ باندھے اس کے احترام میں کھڑے رہیں اور بڑا آدمی اس انداز سے کھڑے رہنے کو اپنی عظمت خیال کرتا ہو، ایسا کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اہل فارس اور اہل روم اپنے بادشاہوں کے لیے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں جبکہ وہ بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا مت کیا کرو۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 928(413)
٭ قیام الیہ:
آگے بڑھ کر استقبال کرنا، شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے، چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے ہاں جاتے تو وہ بھی آپ کا آگے بڑھ کر استقبال کرتیں۔
(سنن أبی داود، الأدب، حدیث: 5217)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو انصار سے فرمایا تھا تو اس کا مطلب بھی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنا اور انھیں سواری سے اترنے میں مدد دینا تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(مسند أحمد: 141/6، 142) (3)
ہمارے ہاں سکولوں میں اساتذہ کی آمد پر لڑکوں اور لڑکیوں کا کھڑے ہونا اور حکم عدولی کرنے والے کو سزا دینا قیام،یعنی کھڑے ہونے کی پہلی قسم ہے جو شرعاً جائز نہیں۔
اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6262   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.