الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
35. بَابُ رَفْعِ الأَمَانَةِ:
35. باب: (آخر زمانہ میں) دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا۔
(35) Chapter. The disappearance of Al-Amanah.
حدیث نمبر: 6497
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، حدثنا الاعمش، عن زيد بن وهب، حدثنا حذيفة، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين رايت احدهما وانا انتظر الآخر، حدثنا:" ان الامانة نزلت في جذر قلوب الرجال، ثم علموا من القرآن، ثم علموا من السنة، وحدثنا عن رفعها، قال: ينام الرجل النومة، فتقبض الامانة من قلبه، فيظل اثرها مثل اثر الوكت، ثم ينام النومة، فتقبض فيبقى اثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك، فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء، فيصبح الناس يتبايعون فلا يكاد احد يؤدي الامانة، فيقال: إن في بني فلان رجلا امينا، ويقال للرجل: ما اعقله وما اظرفه وما اجلده وما في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان، ولقد اتى علي زمان وما ابالي ايكم بايعت لئن كان مسلما رده علي الإسلام، وإن كان نصرانيا رده علي ساعيه، فاما اليوم فما كنت ابايع إلا فلانا وفلانا"، قال الفربري، قال ابو جعفر: حدثت ابا عبد الله، فقال: سمعت احمد بن عاصم، يقول: ابا عبيد، يقول: قال الاصمعي، وابو عمرو، وغيرهما، جذر قلوب الرجال الجذر الاصل من كل شيء الوكت اثر الشيء اليسير منه، والمجل اثر العمل في الكف إذا غلظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا:" أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ، وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا، قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفِطَ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ فَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا رَدَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامُ، وَإِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا رَدَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ أُبَايِعُ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا"، قَالَ الفِرَبْرِيُّ، قَال أَبُو جَعْفَرٍ: حَدَّثْتُ أَبَا عَبْد اللَّهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ عَاصِم، يَقُولُ: أَبَا عُبَيْدٍ، يَقُولً: قَالَ الأَصْمَعِيُّ، وَأَبُو عَمْرٍو، وَغَيْرُهُمَا، جَذْرُ قُلُوبِ الرَّجَالِ الْجَذْرُ الأَصْلُ مِنْ كُلِّ شَيءٍ الوَكْتُ أَثَرُ الشَّيْءِ الْيَسِيرُ مِنْهُ، وَالْمَجْلُ أَثَرُ الْعَمَلِ فِي الكَفِّ إذَا غَلُظَ.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ان سے زید بن وہب نے، کہا ہم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں ارشاد فرمائیں۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ پھر قرآن شریف سے، پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی اور اس بےایمانی کا ہلکا نشان پڑ جائے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہو جائے گا جیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہو جائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید و فروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہو گا، کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان (امانت) نہیں ہو گا۔ (حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے ایک ایسا وقت بھی گزارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ کس سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام (بےایمانی سے) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید و فروخت ہی نہیں کرتا۔

Narrated Hudhaifa: Allah's Apostle narrated to us two narrations, one of which I have seen (happening) and I am waiting for the other. He narrated that honesty was preserved in the roots of the hearts of men (in the beginning) and then they learnt it (honesty) from the Qur'an, and then they learnt it from the (Prophet's) Sunna (tradition). He also told us about its disappearance, saying, "A man will go to sleep whereupon honesty will be taken away from his heart, and only its trace will remain, resembling the traces of fire. He then will sleep whereupon the remainder of the honesty will also be taken away (from his heart) and its trace will resemble a blister which is raised over the surface of skin, when an ember touches one's foot; and in fact, this blister does not contain anything. So there will come a day when people will deal in business with each other but there will hardly be any trustworthy persons among them. Then it will be said that in such-and-such a tribe there is such-and-such person who is honest, and a man will be admired for his intelligence, good manners and strength, though indeed he will not have belief equal to a mustard seed in his heart." The narrator added: There came upon me a time when I did not mind dealing with anyone of you, for if he was a Muslim, his religion would prevent him from cheating; and if he was a Christian, his Muslim ruler would prevent him from cheating; but today I cannot deal except with so-and-so and so-and-so. (See Hadith No. 208, Vol. 9)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 504


   صحيح البخاري7086حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى فيها أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه ش
   صحيح البخاري7276حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت من السماء في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فقرءوا القرآن وعلموا من السنة
   صحيح البخاري6497حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء فيصبح
   صحيح مسلم367حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتر
   جامع الترمذي2179حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة فقال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام نومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفطت
   سنن ابن ماجه4053حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فعلمنا من القرآن وعلمنا من السنة ثم حدثنا عن رفعها فقال ينام الرجل النومة فترفع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر الكوكب وينام النومة فتنزع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منت
   مسندالحميدي451حذيفة بن حسيلأن الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497  
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]

لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔

فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 87   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053  
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔

(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔

(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔

(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4053   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179  
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2179   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6497  
6497. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کا ظہور میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر انہوں نے قرآن سے اس کی حیثیت کو معلوم کیا، پھر انہوں نے حدیث سے اس کی اہمیت کا پتہ چلایا۔ آپ ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق بھی بیان کیا، فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا کہ امانت اس کے دل سے ختم ہو جائے گی، صرف اس کا دھندلا سا نشان باقی رہے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا تو امانت اٹھالی جائے گی، صرف آبلے کی طرح اس کا ایک نشان باقی رہ جائے گا جیسے تو کوئلے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور وہ پھول جائے تو اسے ابھرا ہوا دیکھے گا لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ صبح کے وقت خرید وفروخت کریں گے تو ان کے ہاں کوئی بھی امانت دار نہیں ہوگا، کہا جائے گا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6497]
حدیث حاشیہ:
چند ہی آدمی اس قابل ہیں کہ ان سے معاملہ کروں۔
متن قسطانی میں یہاں اتنی عبارت اورزیادہ ہے۔
قال الفربري قال أبو جعفر حدثت أبا عبد اللہ فقال سمعت أبا أحمد بن عاصم ....یقول سمعت أبا عبید یقول قال الأصمعي وأبو عمرو و غیرهما جذر قلوب الرجال الجذر الأصل من کل شيئ والوکت أثر الشيئ الیسیر منه والمجل أثر والعمل في الکف إذا غلظ یعنی محمد بن یوسف فربری نے کہا ابو جعفر محمد بن حاتم جو امام بخاری کے منشی تھے ان کی کتابیں لکھا کرتے تھے، کہتے تھے کہ میں نے امام بخاری کو حدیث سنائی تو وہ کہنے لگے میں نے ابو احمد بن عاصم بلخی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو عبید سے سنا، وہ کہتے تھے عبدالملک بن قریب اصمعی اور ابو عمرو بن علاء قاہری وغیرہ لوگوں نے سفیان ثوری سے کہا جذر کا لفظ جو حدیث میں ہے اس کا معنیٰ جڑ اور وکت کہتے ہیں ہلکے خفیف داغ کو اور مجل وہ موٹا چھالا جو کام کرنے سے ہاتھ میں پڑ جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6497   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6497  
6497. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کا ظہور میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر انہوں نے قرآن سے اس کی حیثیت کو معلوم کیا، پھر انہوں نے حدیث سے اس کی اہمیت کا پتہ چلایا۔ آپ ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق بھی بیان کیا، فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا کہ امانت اس کے دل سے ختم ہو جائے گی، صرف اس کا دھندلا سا نشان باقی رہے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا تو امانت اٹھالی جائے گی، صرف آبلے کی طرح اس کا ایک نشان باقی رہ جائے گا جیسے تو کوئلے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور وہ پھول جائے تو اسے ابھرا ہوا دیکھے گا لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ صبح کے وقت خرید وفروخت کریں گے تو ان کے ہاں کوئی بھی امانت دار نہیں ہوگا، کہا جائے گا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6497]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض اہل علم نے بايعت سے بیعت خلافت مراد لی ہے، حالانکہ یہ معنی غلط ہیں کیونکہ عیسائی اور کافر سے یہ کیسے ممکن ہے بلکہ اس سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنا ہے۔
(فتح الباري: 406/11) (2)
دیانت داری، مسلمان معاشرے کا ایک اہم کردار ہے، البتہ غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا دہی اور فریب و خیانت کو ایک خوبی خیال کیا جاتا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد اور دیانت دار افراد بہت کم رہ گئے ہیں، اس دور میں تو کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہیں۔
سوئے ہوئے دل سے دیانت داری کے ختم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ امانت و دیانت بڑی تیزی سے ختم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا وہی بددیانت بن جائے گا۔
(3)
آبلے سے تشبیہ اس لیے دی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتا ہے لیکن وہ اندر سے خالی ہوتا ہے، اسی طرح لوگ بظاہر نیک نظر آئیں گے لیکن ان کے دل نیکی اور دیانت سے خالی ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6497   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.