الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
The Book of Oaths and Vows
4. بَابُ لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ:
4. باب: اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔
(4) Chapter. “Do not swear by your fathers."
حدیث نمبر: 6649
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوهاب، عن ايوب، عن ابي قلابة، والقاسم التميمي، عن زهدم، قال: كان بين هذا الحي من جرم، وبين الاشعريين ود وإخاء، فكنا عند ابي موسى الاشعري، فقرب إليه طعام فيه لحم دجاج، وعنده رجل من بني تيم الله احمر كانه من الموالي، فدعاه إلى الطعام، فقال: إني رايته ياكل شيئا فقذرته، فحلفت ان لا آكله، فقال: قم فلاحدثنك عن ذاك، إني اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من الاشعريين نستحمله، فقال:" والله لا احملكم وما عندي ما احملكم عليه"، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنهب إبل، فسال عنا، فقال:" اين النفر الاشعريون"، فامر لنا بخمس ذود غر الذرى، فلما انطلقنا، قلنا: ما صنعنا حلف رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحملنا وما عنده ما يحملنا، ثم حملنا، تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، والله لا نفلح ابدا، فرجعنا إليه، فقلنا له: إنا اتيناك لتحملنا، فحلفت ان لا تحملنا وما عندك ما تحملنا، فقال:" إني لست انا حملتكم، ولكن الله حملكم، والله لا احلف على يمين فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيت الذي هو خير، وتحللتها".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، وَالْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جَرْمٍ، وَبَيْنَ الْأَشْعَرِيِّينَ وُدٌّ وَإِخَاءٌ، فَكُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ طَعَامٌ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي، فَدَعَاهُ إِلَى الطَّعَامِ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، فَقَالَ: قُمْ فَلَأُحَدِّثَنَّكَ عَنْ ذَاكَ، إِنِّي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ"، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَسَأَلَ عَنَّا، فَقَالَ:" أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ"، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا، قُلْنَا: مَا صَنَعْنَا حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحْمِلُنَا وَمَا عِنْدَهُ مَا يَحْمِلُنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا، تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، وَاللَّهِ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّا أَتَيْنَاكَ لِتَحْمِلَنَا، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا وَمَا عِنْدَكَ مَا تَحْمِلُنَا، فَقَالَ:" إِنِّي لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تیمی نے اور ان سے زہدم نے بیان کیا کہ ان قبائل، جرم اور اشعر کے درمیان بھائی چارہ تھا۔ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے تو ان کے لیے کھانا لایا گیا۔ اس میں مرغی بھی تھی۔ ان کے پاس بنی تیم اللہ کا ایک سرخ رنگ کا آدمی بھی موجود تھا۔ غالباً وہ غلاموں میں سے تھا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے کھانے پر بلایا تو اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی اور پھر میں نے قسم کھا لی کہ اب میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کھڑے ہو جاؤ تو میں تمہیں اس کے بارے میں ایک حدیث سناؤں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ساتھ آیا اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا جانور مانگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس ایسا کوئی جانور ہے جو تمہیں سواری کے لیے دے سکوں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال غنیمت کے اونٹ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اشعری لوگ کہاں ہیں پھر آپ نے ہم کو پانچ عمدہ قسم کے اونٹ دئیے جانے کا حکم فرمایا۔ جب ہم ان کو لے کر چلے تو ہم نے کہا یہ ہم نے کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قسم کھا چکے تھے کہ ہم کو سواری نہیں دیں گے اور درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت سواری موجود بھی نہ تھی پھر آپ نے ہم کو سوار کرا دیا۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم سے غافل کر دیا۔ قسم اللہ کی ہم اس حرکت کے بعد کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ پس ہم آپ کی طرف لوٹ کر آئے اور آپ سے ہم نے تفصیل بالا کو عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس آئے تھے تاکہ آپ ہم کو سواری پر سوار کرا دیں پس آپ نے قسم کھا لی تھی کہ آپ ہم کو سوار نہیں کرائیں گے اور درحقیقت اس وقت آپ کے پاس سواری موجود بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب سن کر فرمایا کہ میں نے تم کو سوار نہیں کرایا بلکہ اللہ نے تم کو سوار کرا دیا۔ اللہ کی قسم جب میں کوئی قسم کھا لیتا ہوں بعد میں اس سے بہتر اور معاملہ دیکھتا ہوں تو میں وہی کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے اور اس قسم کا کفارہ ادا کر دیتا ہوں۔

Narrated Zahdam: There was a relation of love and brotherhood between this tribe of Jarm and Al-Ash`ariyin. Once we were with Abu Musa Al-Ash`ari, and then a meal containing chicken was brought to Abu Musa, and there was present, a man from the tribe of Taimillah who was of red complexion as if he were from non-Arab freed slaves. Abu Musa invited him to the meal. He said, "I have seen chickens eating dirty things, so I deemed it filthy and took an oath that I would never eat chicken." On that, Abu Musa said, "Get up, I will narrate to you about that. Once a group of the Ash`ariyin and I went to Allah's Apostle and asked him to provide us with mounts; he said, 'By Allah, I will never give you any mounts nor do I have anything to mount you on.' Then a few camels of war booty were brought to Allah's Apostle , and he asked about us, saying, 'Where are the Ash-'ariyin?' He then ordered five nice camels to be given to us, and when we had departed, we said, 'What have we done? Allah's Apostle had taken the oath not to give us any mounts, and that he had nothing to mount us on, and later he gave us that we might ride? Did we take advantage of the fact that Allah's Apostle had forgotten his oath? By Allah, we will never succeed.' So we went back to him and said to him, 'We came to you to give us mounts, and you took an oath that you would not give us any mounts and that you had nothing to mount us on.' On that he said, 'I did not provide you with mounts, but Allah did. By Allah, if I take an oath to do something, and then find something else better than it, I do that which is better and make expiation for the dissolution of the oath.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 644


   صحيح البخاري7555عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منه وتحللتها
   صحيح البخاري6680عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6721عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6649عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6718عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   صحيح البخاري5518عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري3133عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6623عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أو أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني
   صحيح البخاري4385عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منها
   صحيح مسلم4263عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين ثم أرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   صحيح مسلم4265عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها فانطلقوا فإنما حملكم الله
   صحيح مسلم4269عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين أرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير
   سنن أبي داود3276عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خي
   سنن النسائى الصغرى3811عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   سنن النسائى الصغرى3810عبد الله بن قيسما على الأرض يمين أحلف عليها فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيته
   سنن ابن ماجه2107عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أوقال أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني
   المعجم الصغير للطبراني12عبد الله بن قيسمن حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه
   مسندالحميدي783عبد الله بن قيسرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107  
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قسم کی تین قسمیں ہیں:

(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔

(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔

(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)

۔

(2)
  قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)

(3)
  ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔

(4)
  نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾  (البقرۃ، 2: 224)
اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔

(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6649  
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غیر مفید قسم کا کفارہ ادا کر کے توڑ دینا سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6649   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6649  
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خرید کر اشعری حضرات کو عنایت فرمائے تھے جبکہ اس حدیث کے مطابق وہ غنیمت کے طور پر آپ کو ملے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ اونٹ غنیمت ہی کے تھے لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حصے میں جو اونٹ آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خرید کر اشعری حضرات کو عنایت کیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دو الگ الگ واقعات ہوں۔
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ اس میں کفارہ دیا گیا اور کفارہ اس قسم پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اٹھائی جائے، لہذا معلوم ہوا کہ آپ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاتے تھے، غیراللہ کی قسم اٹھانا آپ کا معمول نہ تھا۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 653/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6649   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.