الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
The Book of Al-Farad (The Laws of Inheritance)
16. بَابُ ذَوِي الأَرْحَامِ:
16. باب: ذوی الارحام (جیسے ماموں، خالہ، نانا، نواسہ، بھانجا)۔
(16) Chapter. (Can) kindred by blood (i.e., Dhawil-Arham) (be the heir of the deceased).
حدیث نمبر: 6747
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني إسحاق بن إبراهيم، قال، قلت لابي اسامة، حدثكم إدريس، حدثنا طلحة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ولكل جعلنا موالي سورة النساء آية 33 والذين عقدت ايمانكم سورة النساء آية 33 قال:" كان المهاجرون حين قدموا المدينة، يرث الانصاري، المهاجري دون ذوي رحمه، للاخوة التي آخى النبي صلى الله عليه وسلم بينهم"، فلما نزلت: ولكل جعلنا موالي سورة النساء آية 33 قال: نسختها: والذين عقدت ايمانكم سورة النساء آية 33.(موقوف) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ، قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ، حَدَّثَكُمْ إِدْرِيسُ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33 وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33 قَالَ:" كَانَ الْمُهَاجِرُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، يَرِثُ الْأَنْصَارِيُّ، الْمُهَاجِرِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ، لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ"، فَلَمَّا نَزَلَتْ: وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33 قَالَ: نَسَخَتْهَا: وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33.
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا کیا آپ سے ادریس نے بیان کیا تھا، ان سے طلحہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے «ولكل جعلنا موالي‏» اور «والذين عقدت أيمانكم‏» کے متعلق بتلایا کہ مہاجرین جب مدینہ آئے تو ذوی الارحام کے علاوہ انصار و مہاجرین بھی ایک دوسرے کی وراثت پاتے تھے۔ اس بھائی چارگی کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان کرائی تھی، پھر جب آیت «جعلنا موالي‏» نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس نے «والذين عقدت أيمانكم‏» کو منسوخ کر دیا۔

Narrated Ibn `Abbas: Regarding the Holy Verse:--'And to everyone, We have appointed heirs..' And:-- (4.33) 'To those also to Whom your right hands have pledged.' (4.33) When the emigrants came to Medina, the Ansar used to be the heir of the emigrants (and vice versa) instead of their own kindred by blood (Dhawl-l-arham), and that was because of the bond of brotherhood which the Prophet had established between them, i.e. the Ansar and the emigrants. But when the Divine Verse:-- 'And to everyone We have appointed heirs,' (4.33) was revealed, it cancelled the other, order i.e. 'To those also, to whom Your right hands have pledged.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 80, Number 739



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6747  
6747. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت: (جو کچھ ترکہ والدین یا قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں) ہم نے ان کے وارث مقرر کر دیے ہیں۔ اور وہ لوگ بھی جن سے تم نے عقد باندھ رکھا ہے، کے متعلق فرمایا: جب مہاجرین اسلام مدینہ طیبہ آئے تو مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا تھا اور انصاری کے رشتے داروں کو ترکے سے حصہ نہیں ملتا تھا کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے درمیان مؤاخات کرا دی تھی، پھر جب یہ آیت اتری: ہم نے ہر ایک کے وارث بنا رکھے ہیں۔ تو اس نے عقد موالات کا سلسلہ منسوخ کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6747]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک رویت میں ہے کہ اب مدد، دوستی اور خیر خواہی باقی ہے ترکے سے وراثت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وصیت کا حکم باقی ہے۔
(صحیح البخاري، الکفالة،حدیث: 2292) (2)
ذوی الارحام کی وراثت کے متعلق دو مذہب ہیں:
٭انھیں وراثت سے حصہ نہ دیا جائے بلکہ اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے۔
٭جب اصحاب الفروض اور عصبات نہ ہوں تو میت کا ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کیا جائے۔
عقلی اور نقلی اعتبار سے دوسرا مذہب راجح اور عمل کے قابل ہے، بالخصوص جب بیت المال کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، اب چاروں مذاہب اس پر متفق ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کتاب اللہ میں رشتے دار ایک دوسرے کے(وراثت میں)
زیادہ حق دار ہیں۔
(الأنفال8: 75)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ماموں وارث ہوگا جس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو۔
(سنن أبي داود، الفرائض، حدیث: 2899)
عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ میت کا ذوی الارحام کے ساتھ خونی اور اسلامی رشتہ ہے اور بیت المال کے ساتھ صرف اسلامی تعلق ہے۔
ظاہر ہے کہ دو تعلق رکھنے والا، ایک تعلق رکھنے والے سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
(3)
ذوی الارحام کی وراثت کی دو شرطیں ہیں:
٭ کوئی صاحب فرض موجود نہ ہو۔
٭کوئی عصبہ وارث موجود نہ ہو۔
واضح رہے کہ ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں:
٭ اصول المیت:
نانا وغیرہ۔
٭ فروع المیت:
بیٹیوں کی اولاد، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ۔
٭فروع اب المیت:
بھائیوں کی بیٹیاں بھتیجیاں وغیرہ۔
٭ فروع جد المیت:
چچا مادری اور چچا حقیقی کی بیٹیاں وغیرہ۔
(4)
ذوی الارحام میں ترکہ تقسیم کرنے کے متعلق علماء کے تین موقف حسب ذیل ہیں:
٭اصل رحم:
ان کے نزدیک تمام ذوی الارحام میں ترکہ برابر تقسیم کیا جائے۔
مذکر مؤنث، قریب وبعید اور قوی وضعیف میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
٭ اصل قرابت:
ان کے نزدیک ذوی الارحام میں پہلے قرب کا درجہ پھر قوت وضعف کا اعتبار اور مذکرو مؤنث میں عصبات کی طرح فرق کیا جائے گا۔
٭ اہل تنزیل:
ان کے نزدیک ذوی الارحام کو ان اصحاب الفرائض یا عصبات کی جگہ اتارا جائے گا جن کی وجہ سے یہ میت کی طرف منسوب ہیں۔
جمہور علماء نے اہل تنزیل کے طریقے کو ترجیح دی ہے جس کی تفصیل تفصیلی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6747   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.