الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
The Book of Obliging The Apostates and The Repentance of Those Who Refuse The Truth Obstinately, and To Fight Against Such People
1. بَابُ إِثْمِ مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ وَعُقُوبَتِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ:
1. باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ لقمان میں) فرمایا «إثم من أشرك بالله وعقوبته في الدنيا والآخرة» ۔
(1) Chapter. The sin of the person who ascribes partners in worship to Allah, and his punishment in this world and in the Hereafter.
حدیث نمبر: Q6918
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال الله تعالى: {إن الشرك لظلم عظيم}، {لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين}.قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ}، {لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}.
‏‏‏‏ «إن الشرك لظلم عظيم‏» شرک بڑا گناہ ہے (اور سورۃ الزمر میں فرمایا) «لئن أشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين‏» اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔

حدیث نمبر: 6918
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: لما نزلت هذه الآية: الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82، شق ذلك على اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقالوا:" اينا لم يلبس إيمانه بظلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه ليس بذاك، الا تسمعون إلى قول لقمان: إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا:" أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِذَاكَ، أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ: إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ جب (سورۃ الانعام کی) یہ آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو گناہ سے آلود نہیں کیا (یعنی ظلم سے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بہت گراں گزری وہ کہنے لگے بھلا ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ کوئی ظلم (یعنی گناہ) نہ کیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا تم نے لقمان علیہ السلام کا قول نہیں سنا «إن الشرك لظلم عظيم‏» شرک بڑا ظلم ہے۔

Narrated `Abdullah: When the Verse: 'It is those who believe and confuse not their belief with wrong (i.e., worshipping others besides Allah): (6.82) was revealed, it became very hard on the companions of the Prophet and they said, "Who among us has not confused his belief with wrong (oppression)?" On that, Allah's Apostle said, "This is not meant (by the Verse). Don't you listen to Luqman's statement: 'Verily! Joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.' (31.13)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 53


   صحيح البخاري3360عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قلنا أينا لا يظلم نفسه قال ليس كما تقولون ولم يلبسوا إيمانهم بظلم بشرك أولم تسمعوا إلى قول لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري6918عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمعون إلى قول لقمان إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري4776عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمع إلى قول لقمان لابنه إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري3428عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قال أصحاب النبي أينا لم يلبس إيمانه بظلم فنزلت لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري6937عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يظلم نفسه قال رسول الله ليس كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري3429عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا أينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح مسلم327عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لا يظلم نفسه قال رسول الله ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   جامع الترمذي3067عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا وأينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6937  
´تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6937]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6937 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں کس طرح مناسبت قائم ہو گی؟ کیوں کہ حدیث میں بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو باب کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و وجه دخول فى الترجمة من جهة أنه صلى الله عليه وسلم لم يؤاخذ الصحابة بحملهم الظلم فى الآية على عمومة حتي يتناول كل معصية قولهم سار يسور إذا ارتفع ذكره . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 261/13]
ترجمۃ الباب میں اس حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ میں مذکور ظلم کو اس کے عموم پر محمول کرنے کی وجہ سے کہ ہر معصیت متناول ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواخذہ نہ فرمایا، بلکہ انہیں معذور جانا، کیوں کہ ظاہر میں یہی تاویل تھی، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس مراد کی وضاحت فرمائی جس سے اشکال دور ہو گیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لفظ ظلم کی تاویل فرمائی جو کہ عمومیت پر قائم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تاویل و عذر کو قبول فرما لیا اور ان پر کسی قسم کا مواخذہ یا نکیر نہیں فرمائی۔ اب گفتگو کا خلاصہ اور باب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی تاویل شرک کے ساتھ فرمائی جبکہ ظلم کا عمومی اور ظاہری معنی تو گناہ کے ہیں جس میں ہر شخص داخل ہے اور تاویل (جیسا کے باب میں مذکور ہے) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، لہٰذا اسی کی تاویل یقینی طور پر قبول ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مطابقت باب سے حدیث کی اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ظلم کی تاویل مطلق گناہ سے کی بلکہ اس کی جگہ انہیں دوسرا صحیح معنی بتایا۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 260   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3067  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3067]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی۔
(الأنعام: 82)

2؎:
اے میرے بیٹے! شرک نہ کر۔
شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: 13)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3067   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6918  
6918. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6918]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بے ایمان ہو، خدا کا منکر ہو یا دو خداؤں کا قائل ہو بلکہ کبھی ایمان کے ساتھ بھی آدمی شرک میں آلودہ ہو جاتا ہے جیسے دوسری آیت میں ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾ (یوسف: 106)
قاضی عیاض نے کہا ایمان کا شرک سے آلودہ کرنا یہ ہے کہ اللہ کا قائل ہو (اس کی توحید مانتا ہو)
مگر عبادت میں اوروں کو بھی شریک کرے۔
مترجم کہتا ہے جیسے ہمارے زمانہ کے گور (قبر)
پرستوں اور پیر پرستوں کا حال ہے اللہ کو مانتے ہیں پھر اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کی نذر و نیاز منت مانتے ہیں، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں، دکھ، بیماری میں ان کو پکارتے ہیں، ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، ان کی قبروں پر جا کر سجدہ اور طواف کرتے ہیں، ان سے وسعت رزق یا اولاد یا شفاء طلب کرتے ہیں۔
یہ سب لوگ فی الحقیقت مشرک ہیں۔
گو نام کے مسلمان کہلائیں تو کیا ہوتا ہے۔
ایسا ظاہری برائے نام اسلام آخرت میں کچھ کام نہیں آئے گا۔
عرب کے مشرک بھی اللہ کو مانتے تھے۔
خالق آسمان و زمین اسی کو جانتے تھے مگر غیرخدا کی عبادت اور تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مشرک قرار دیا۔
اگر تم قرآن شریف کا ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھو تو شرک کا مطلب اچھی طرح سمجھ لوگے مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم ساری عمر میں ایک بار بھی قرآن اول سے لے کرآخر تک سمجھ کر نہیں پڑھتے، صرف اس کے الفاظ رٹ لیتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6918   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6918  
6918. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6918]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا منکر ہو یا متعدد الہٰوں کا قائل ہو بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے اقرار کے ساتھ بھی آدمی شرک سے آلودہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔
(یوسف12: 106) (2)
مشرکین مکہ میں یہ اقرار موجود تھا جیسا کہ حج کے موقع پر ان کے تلبیے سےمعلوم ہوتا ہے، وہ یوں کہتے تھے:
اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے اور وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2815(1185)
آج بھی یہ بات بڑی شدت سے پائی جاتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدومد سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، اسی قسم کے عقیدے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اس سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب یاعلمی روایت میرےپاس لاؤ،اگرتم سچے ہو۔
(الأحقاف46: 4)
یعنی کیا تم کسی الہامی کتاب یا علمی روایت میں یہ بات دکھا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو دے رکھے ہیں؟ (3)
دور حاضر میں قبر پرستوں اور پیر پرستوں کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کے لیے نذرونیاز اور منت مانتے ہیں، بیماری اور مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، انھیں برملا حاجت روا اور مشکل کشا کہا جاتا ہے۔
ان کی قبروں کا طواف ہوتا ہے، یہ سب شرک ہے اگرچہ اپنے ایمان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
اس قسم کا ظاہری ایمان قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئے گا۔
مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، زمین و آسمان کا خالق ومالک اسی کو سمجھتے تھے مگر غیر اللہ کی عبادت اور ان کی انتہائی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا ہے۔
(4)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی تھی لیکن بعض اوقات انھیں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آ جاتی تھی، افسوس کہ آج مسلمانوں میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بے نیاز ہو کر محض لغت کے سہارے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی آیت کے مفہوم میں دشواری پیش آ سکتی ہے تو ہم عجمی لوگ لغت کے سہارے قرآن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔
دراصل یہ منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اپنے عمل وکردار اور گفتار سے اس کی تعظیم کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق سمجھ عطا فرمائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6918   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.