صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6944 کا باب: «بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:» باب اورحدیث میں مناسبت: علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض وارد کیا ہے کہ ان دونوں میں مناسبت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آپ راقم ہیں:
«استدل أبوعبدالله يعني البخاري بحديث أبى هريرة يعني المذكور فى الباب على جواز بيع المكره والحديث ببيع المضطر أشبه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیع المکرہ کے جواز پر استدلال فرمایا ہے جب کہ یہ حدیث بیع مضطر کے ساتھ اشبہ ہے، کیوں کہ بیع پر مکرو ہی کسی شئی کا بیع کا حامل ہے اس کی رضا ہو یا نہ ہو۔“
یہی اعتراض علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری میں نقل فرمایا ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اعتراضات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے جوابات بھی مہیا کیے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے مضطر کی بیع جائز رکھی ہے، اسی لیے آپ نے باب سے اس کا جواز نکالا ہے، مضطر سے مراد وہ شخص ہے جو مفلس ہو کر اپنا مال بیچے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہیں:
«قلت لم يقتصر البخاري فى الترجمة على المكره و إنما قال: ”بيع المكره و نحوه فى الحق“ فدخل فى ترجمته المضطر، وكأنه أشار إلى الرد على من لا يصح بيع المضطر، و قوله فى آخر كلامه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13] ”امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مکرہ پر اقتصار نہیں کیا، صرف یہ کہا:
«بيع المكره ونحوه فى الحق» تو اس میں مضطر بھی داخل ہے، گویا ان حضرات کے رد کا اشارہ دیا ہے جو مضطر کی بیع کی صحت کے قائل نہیں ہیں، خطابی رحمہ اللہ کا آخر میں کہنا ہے کہ اگر اس پر مجبور کیا گیا تو یہ جائز نہیں مردود ہے، کیوں کہ یہ حق کے ساتھ اکراہ ہے، علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے بھی ان کا تعاقب کیا ہے۔
“ ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، بیع مکرہ اور بیع مضطر، ترجمۃ الباب کا تعلق دوسرے جزء یعنی بیع مضطر سے ہے لہٰذا مضطر سے مراد یہاں یہ ہے کہ مجبور ہو کر اپنا مال بیچے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان کا مال بیچنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے بیان سے واضح ہے، اور جہاں تک پہلے جزء کا تعلق ہے تو اس کے لیے متن حدیث سے استدلال کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ بیع المکرہ میں مضطر بالاولی داخل ہو گا، یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔
«والله اعلم»