الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
60. بَابُ إِذَا طَوَّلَ الإِمَامُ وَكَانَ لِلرَّجُلِ حَاجَةٌ فَخَرَجَ فَصَلَّى:
60. باب: اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے اور کسی کو کام ہو وہ اکیلے نماز پڑھ کر چل دے تو یہ کیسا ہے؟
(60) Chapter. If the Imam prolongs the Salat (prayer) and somebody has an urgent work or need and so he leaves the congregation and offers Salat alone.
حدیث نمبر: 701
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني محمد بن بشار، قال: حدثنا غندر، قال: حدثنا شعبة، عن عمرو، قال: سمعت جابر بن عبد الله، قال:" كان معاذ بن جبل يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يرجع فيؤم قومه، فصلى العشاء فقرا بالبقرة فانصرف الرجل، فكان معاذا تناول منه فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: فتان، فتان، فتان، ثلاث مرار، او قال: فاتنا، فاتنا، فاتنا، وامره بسورتين من اوسط المفصل"، قال عمرو: لا احفظهما.(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ فَقَرَأَ بِالْبَقَرَةِ فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَكَأَنَّ مُعَاذًا تَنَاوَلَ مِنْهُ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، ثَلَاثَ مِرَارٍ، أَوْ قَالَ: فَاتِنًا، فَاتِنًا، فَاتِنًا، وَأَمَرَهُ بِسُورَتَيْنِ مِنْ أَوْسَطِ الْمُفَصَّلِ"، قَالَ عَمْرٌو: لَا أَحْفَظُهُمَا.
(دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے فرمایا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (فرض) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو (وہی) نماز پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بار عشاء میں انہوں نے سورۃ البقرہ شروع کی۔ (مقتدیوں میں سے) ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ معاذ رضی اللہ عنہ اس کو برا کہنے لگے۔ یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی (اس شخص نے جا کر معاذ کی شکایت کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو فرمایا تو بلا میں ڈالنے والا ہے، بلا میں ڈالنے والا، بلا میں ڈالنے والا تین بار فرمایا۔ یا یوں فرمایا کہ تو فسادی ہے، فسادی، فسادی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو حکم فرمایا کہ مفصل کے بیچ کی دو سورتیں پڑھا کرے۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ مجھے یاد نہ رہیں (کہ کون سی سورتوں کا آپ نے نام لیا۔)

Narrated `Amr: Jabir bin `Abdullah said, "Mu`adh bin Jabal used to pray with the Prophet and then go to lead his people in prayer Once he led the `Isha' prayer and recited Surat "Al-Baqara." Somebody left the prayer and Mu`adh criticized him. The news reached the Prophet and he said to Mu`adh, 'You are putting the people to trial,' and repeated it thrice (or said something similar) and ordered him to recite two medium Suras of Mufassal." (`Amr said that he had forgotten the names of those Suras).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 669



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 701  
701. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے تھے۔ فراغت کے بعد واپس جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے۔ ایک روز انہوں نے نماز عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ اسے برا بھلا کہتے تھے۔ یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے (حضرت معاذ ؓ سے) تین دفعہ فرمایا: "فتان، فتان، فتان، (فتنہ پرور)۔" یا یہ فرمایا: " فاتنا، فاتنا، فاتنا (فتنہ پرداز)۔" پھر آپ نے انہیں حکم دیا کہ اوساط مفصل کی دو سورتیں پڑھا کرو۔ راوی حدیث عمرو کہتے ہیں کہ میں ان کو بھول گیا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:701]
حدیث حاشیہ:
اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔
حنفیہ نے یہاں بھی دورازکار تاویلات کی ہیں۔
جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت ﷺ کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جا کر پڑھائی (دیکھو تفہیم البخاری پ: 3 ص: 97)
یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 701   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:701  
701. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے تھے۔ فراغت کے بعد واپس جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے۔ ایک روز انہوں نے نماز عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ اسے برا بھلا کہتے تھے۔ یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے (حضرت معاذ ؓ سے) تین دفعہ فرمایا: "فتان، فتان، فتان، (فتنہ پرور)۔" یا یہ فرمایا: " فاتنا، فاتنا، فاتنا (فتنہ پرداز)۔" پھر آپ نے انہیں حکم دیا کہ اوساط مفصل کی دو سورتیں پڑھا کرو۔ راوی حدیث عمرو کہتے ہیں کہ میں ان کو بھول گیا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:701]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کسی کو امام کی طویل قراءت سے تکلیف ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کی اقتدا چھوڑ کر اکیلا نماز پڑھ لے کیونکہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے امام کی اقتدا ختم کرنے والے کو ملامت نہیں کی بلکہ امام کو تنبیہ فرمائی ہے، لیکن امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک فقہی مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ایک شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے اگر اس نے اقتدا چھوڑ دی تو کیا اس پر بنا کر کے نماز پڑھے یا مکمل نماز کا اعادہ کرے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک جہاں سے امام کی اقتدا چھوڑی ہے وہیں سے بنا کرسکتا ہے، مکمل نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اس صورت میں بنا نہیں کرسکتا بلکہ پوری نماز دوبارہ پڑھے گا۔
امام بخاری ؒ کا میلان جمہور کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اس نے سلام پھیر کر نماز ختم کردی، پھر ایک گوشے میں اکیلے نے نماز پڑھی۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1040 (465)
(2)
سورۂ حجرات سے آخر قرآن تک تمام سورتیں مفصل کہلاتی ہیں، پھر ﴿عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿١﴾ )
تک طوال، ﴿وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾ )
تک اوساط اور (الناس)
تک قصار کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔
عام طور پر سورۂ بروج تک طوال ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ تک اوساط اور (الناس)
تک قصار کا نام دیا جاتا ہے۔
راوئ حدیث حضرت عمرو بن دینار نے کہا کہ میں وہ دو سورتیں بھول گیا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے شاگرد حضرت شعبہ کو حدیث بیان کی، اس کے برعکس جب سلیمان بن حیان سے حدیث بیان کی تو وضاحت سے کہا کہ وہ دو سورتیں ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ تھیں۔
بعض روایات میں ان کے ساتھ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ کا ذکر بھی ہے۔
(فتح الباري: 253/2) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شرعی سبب کی وجہ سے ایک نماز کو ایک ہی دن میں دومرتبہ پڑھا جاسکتا ہے، البتہ بطور فرض ایک نماز کو دو دفعہ پڑھنا صحیح نہیں۔
کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ مت پڑھو۔
امام بیہقی ؒ نے اس کی تطبیقی صورت یہ بیان کی ہے کہ پہلی کو فرض اور دوسری کو نفل قرار دے دیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر تم گھر میں نماز پڑھ لو پھر جماعت میں شمولیت کا بھی موقع مل جائے تو اسی نماز کو دوبارہ باجماعت پڑھ لینا چاہیے۔
دوسری نماز نفل ہوگی، نیز اگر ظالم حکمران نماز تاخیر سے پڑھیں تو اس وقت بھی یہی حکم ہے کہ گھر میں بروقت نماز پڑھ لی جائے پھر فتنے سے بچتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شمولیت کر لی جائے اور اسے نفل کا درجہ دیا جائے۔
(فتح الباري: 255/2)
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض طرق میں صراحت ہے کہ دوسری مرتبہ ادا کہ ہوئی نماز ان کے لیے نفل اور لوگوں کے لیے فرض ہوتی تھی۔
(فتح الباري: 254/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 701   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.