الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
17. بَابُ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ:
17. باب: اس فتنے کا بیان جو فتنہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار کر اٹھے گا۔
(17) Chapter. Al-Fitnah (trial and affliction) that will move like the waves of the sea.
حدیث نمبر: Q7096
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عيينة عن وخلف بن حوشب كانوا يستحبون ان يتمثلوا بهذه الابيات عند الفتن، قال امرؤ القيس الحرب اول ما تكون فتية تسعى بزينتها لكل جهول حتى إذا اشتعلت وشب ضرامها ولت عجوزا غير ذات حليل شمطاء ينكر لونها وتغيرت مكروهة للشم والتقبيلوَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ وخَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَتَمَثَّلُوا بِهَذِهِ الْأَبْيَاتِ عِنْدَ الْفِتَنِ، قَالَ امْرُؤُ الْقَيْسِ الْحَرْبُ أَوَّلُ مَا تَكُونُ فَتِيَّةً تَسْعَى بِزِينَتِهَا لِكُلِّ جَهُولِ حَتَّى إِذَا اشْتَعَلَتْ وَشَبَّ ضِرَامُهَا وَلَّتْ عَجُوزًا غَيْرَ ذَاتِ حَلِيلِ شَمْطَاءَ يُنْكَرُ لَوْنُهَا وَتَغَيَّرَتْ مَكْرُوهَةً لِلشَّمِّ وَالتَّقْبِيلِ
ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنہ کے وقت ان اشعار سے مثال دینا پسند کرتے تھے۔ جن میں امراء القیس نے کہا ہے۔ ابتداء میں اک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ۔۔۔ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ۔۔۔ جبکہ بھڑکے شعلے اس کے پھیل جائیں ہر طرف۔۔۔ تب وہ ہو جاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ۔۔۔ ایسی بدصورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید۔۔۔ سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ۔

حدیث نمبر: 7096
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا شقيق، سمعت حذيفة، يقول: بينا نحن جلوس عند عمر، إذ قال: ايكم يحفظ قول النبي صلى الله عليه وسلم في الفتنة؟، قال:" فتنة الرجل في اهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة، والامر بالمعروف والنهي عن المنكر، قال: ليس عن هذا اسالك، ولكن التي تموج كموج البحر، قال: ليس عليك منها باس يا امير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال عمر: ايكسر الباب ام يفتح؟، قال: بل يكسر، قال عمر: إذا لا يغلق ابدا، قلت: اجل، قلنا لحذيفة: اكان عمر يعلم الباب؟، قال: نعم، كما يعلم ان دون غد ليلة وذلك اني حدثته حديثا ليس بالاغاليط، فهبنا ان نساله من الباب، فامرنا مسروقا، فساله، فقال: من الباب؟، قال: عمر".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ، إِذْ قَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟، قَالَ:" فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: لَيْسَ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، وَلَكِنِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ عُمَرُ: أَيُكْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ؟، قَالَ: بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ عُمَرُ: إِذًا لَا يُغْلَقَ أَبَدًا، قُلْتُ: أَجَلْ، قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ الْبَابَ؟، قَالَ: نَعَمْ، كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً وَذَلِكَ أَنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ، فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَنِ الْبَابُ؟، قَالَ: عُمَرُ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا: تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ (آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین آپ پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بےبنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔

Narrated Shaqiq: I heard Hudhaifa saying, "While we were sitting with `Umar, he said, 'Who among you remembers the statement of the Prophet about the afflictions?' Hudhaifa said, "The affliction of a man in his family, his property, his children and his neighbors are expiated by his prayers, Zakat (and alms) and enjoining good and forbidding evil." `Umar said, "I do not ask you about these afflictions, but about those afflictions which will move like the waves of the sea." Hudhaifa said, "Don't worry about it, O chief of the believers, for there is a closed door between you and them." `Umar said, "Will that door be broken or opened?" I said, "No. it will be broken." `Umar said, "Then it will never be closed," I said, "Yes." We asked Hudhaifa, "Did `Umar know what that door meant?" He replied, "Yes, as I know that there will be night before tomorrow morning, that is because I narrated to him a true narration free from errors." We dared not ask Hudhaifa as to whom the door represented so we ordered Masruq to ask him what does the door stand for? He replied, "`Umar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 216


   صحيح البخاري7096حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   صحيح البخاري3586حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   صحيح البخاري525حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهي الفتنة التي تموج كما يموج البحر
   صحيح البخاري1895حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة
   صحيح البخاري1435حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والمعروف تموج كموج البحر
   صحيح مسلم7268حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله ونفسه وولده وجاره يكفرها الصيام والصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   جامع الترمذي2258حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره يكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   سنن ابن ماجه3955حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   مسندالحميدي452حذيفة بن حسيلمن يحدثنا عن الفتنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 525  
´فتنوں کا کفارہ`
«. . . قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ . . .»
. . . عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 525]

لغوی توضیح:
«الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً» اسلام اجنبی شروع ہوا، یعنی چند قلیل افراد میں، پھر پھیلا اور غالب آ گیا۔
«الَّتِي» «تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ» وہ فتنہ جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، مراد اس کی شدت، عظمت، پھیلاؤ اور وسعت ہے۔
«بَابًا مُغْلَقًا» بند دروازہ، مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی حیات طیبہ میں کوئی بڑا فتنہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا فتنوں کا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہیں ہو سکا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3955  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔
ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔

(2)
۔
چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔

(3)
اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔

(4)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔
اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔
عام مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔

(6)
یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2258  
´سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کا ذکر۔`
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2258]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل،
مال،
اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز،
روزہ،
صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔

2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا،
یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا،
اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی،
چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2258   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7096  
7096. حضرت حزیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اچانک دریافت کیا تم میں سے کون ہے جو فتنے کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان یاد رکھتا ہو؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: انسان کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی کے معاملات میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھتا بلکہ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: امیرالمومنین! تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ تمہارے اوراس کے درمیان ایک بندہ دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ میں نے کہا: جی ہاں (وہ بند نہیں ہو سکے گا) ہم نے حضرت حذیفہ ؓ سے پوچھا: کیا حضرت عمر ؓ دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: ہاں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7096]
حدیث حاشیہ:
توڑے جانے سے ان کی شہادت مراد ہے۔
إناﷲ و إنا إلیه راجعون۔
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات مسلمانوں کی پشت پناہ تمام آفتوں اور بلاؤں کی روک تھی۔
جب سے یہ ذات مقدس اٹھ گئی مسلمان مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔
آئے دن ایک ایک آفت ایک ایک مصیبت۔
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ان جاہل درویشوں اور صوفیوں کی جو معاذ اللہ ہر چیز کو خدا اور عابد اور معبود کو ایک سمجھتے ہیں، پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان بدعتی گور پرستوں اور پیر پرستوں اور ان رافضیوں اور خارجیوں، دشمنان صحابہ و اہل بیت کی کچھ دال گلنے پانی کبھی نہیں ہرگز نہیں۔
یا اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اور ایک شخص کو مسلمانوں میں بھیج دے اور جو اسلام کا جھنڈا ازسرنو بلند کرے اور دشمنان اسلام کو سرنگوں کر دے۔
آمین یا رب العالمین۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7096   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7096  
7096. حضرت حزیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اچانک دریافت کیا تم میں سے کون ہے جو فتنے کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان یاد رکھتا ہو؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: انسان کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی کے معاملات میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھتا بلکہ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: امیرالمومنین! تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ تمہارے اوراس کے درمیان ایک بندہ دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ میں نے کہا: جی ہاں (وہ بند نہیں ہو سکے گا) ہم نے حضرت حذیفہ ؓ سے پوچھا: کیا حضرت عمر ؓ دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: ہاں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7096]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ کی ذات گرامی فتنوں کی روک تھام کے لیے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی عزت بحال رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ! دو بندوں میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے سے اسلام کی مدد فرما۔
وہ آدمی ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے اپنے محبوب بندے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا۔
(مسند ُحمد: 2/95)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد عزت کے ساتھ سر اونچا کر کے چلنے کا موقع میسر آیا۔
(صحیح البخارذو مناقب الُنصارو حدیث: 3863)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
""عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! جس گلی کوچے میں تم جاتے ہو وہاں سے فتنوں کا سرغنہ ابلیس لعین بھاگ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3683)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعی فتنوں کے سامنے ایک بند دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔
ایک آدمی نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:
ابوسلیمان! آپ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، فتنوں کا دورشروع ہو چکا ہے۔
یہ سن کر انھوں نے فرمایا:
جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہیں فتنوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔
یہ فتنے ان کے بعد ہوں گے، چنانچہ آدمی سوچ بچار کر کے کہے گا کہ کوئی ایسی جگہ میسر آئے جہاں ان کے اثرات نہ ہوں تاکہ وہ وہاں چلا جائے لیکن کوئی ایسی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
یہ وہ ایام ہوں گے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل وغارت کے دن (ایام ہرج)
قرار دیا ہے اور یہ قیامت سے پہلے ہوں گے۔
ہم اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ وہ دن ہمیں یا آپ کو دیکھنے پڑیں۔
(مسندأحمد: 90/4)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واقعی فتنوں کے لیے بند دروازہ بنایا، یہ دروازہ ٹوٹتے ہی فتنوں نے امت مسلمہ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7096   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.