الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
33. بَابُ مَنْ لَمْ يَكْتَرِثْ بِطَعْنِ مَنْ لاَ يَعْلَمُ فِي الأُمَرَاءِ حَدِيثًا:
33. باب: کسی شخص کی سرداری میں نافرمانی سے لوگ طعنہ دیں اور حاکم ان کے طعنہ کی پرواہ نہ کرے۔
(33) Chapter. Whoever does not care slanders made by ignorant people against the Amirs (leaders).
حدیث نمبر: 7187
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، يقول:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا، وامر عليهم اسامة بن زيد، فطعن في إمارته، وقال: إن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة ابيه من قبله، وايم الله إن كان لخليقا للإمرة، وإن كان لمن احب الناس إلي، وإن هذا لمن احب الناس إلي بعده".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطُعِنَ فِي إِمَارَتِهِ، وَقَالَ: إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَه".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنایا لیکن ان کی سرداری پر طعن کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر آج تم ان کی امارت کو مطعون قرار دیتے ہو تو تم نے اس سے پہلے اس کے والد (زید رضی اللہ عنہ) کی امارت کو بھی مطعون قرار دیا تھا اور اللہ کی قسم! وہ امارت کے لیے سزاوار تھے اور وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (اسامہ رضی اللہ عنہ) ان کے بعد سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle sent an army unit headed by Usama bin Zaid and the people criticized his leadership. The Prophet said (to the people), "If you are criticizing his leadership now, then you used to criticize his father's leadership before. By Allah, he (Usama's father) deserved the leadership and used to be one of the most beloved persons to me, and now his son (Usama) is one of the most beloved persons to me after him. " (See Hadith No. 745, Vol. 5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 297


   صحيح البخاري6627عبد الله بن عمرإن كنتم تطعنون في إمرته فقد كنتم تطعنون في إمرة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده
   صحيح البخاري3730عبد الله بن عمرأمر عليهم أسامة بن زيد فطعن بعض الناس في إمارته فقال النبي أن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي
   صحيح البخاري4250عبد الله بن عمرأمر رسول الله أسامة على قوم فطعنوا في إمارته فقال إن تطعنوا في إمارته فقد طعنتم في إمارة أبيه من قبله وايم الله لقد كان خليقا للإمارة وإن كان من أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده
   صحيح البخاري7187عبد الله بن عمرإن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبله وايم الله إن كان لخليقا للإمرة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده
   صحيح البخاري4469عبد الله بن عمرإن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده
   صحيح مسلم6265عبد الله بن عمرتطعنوا في إمارته يريد أسامة بن زيد فقد طعنتم في إمارة أبيه من قبله وايم الله إن كان لخليقا لها وايم الله إن كان لأحب الناس إلي وايم الله إن هذا لها لخليق يريد أسامة بن زيد وايم الله إن كان لأحبهم إلي من بعده فأوصيكم به فإنه من صالحيكم
   صحيح مسلم6264عبد الله بن عمرتطعنوا في إمرته فقد كنتم تطعنون في إمرة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمرة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده
   جامع الترمذي3816عبد الله بن عمرإن تطعنوا في إمرته فقد كنتم تطعنون في إمرة أبيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان من أحب الناس إلي وإن هذا من أحب الناس إلي بعده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3816  
´زید بن حارثہ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کر چکے ہو ۱؎، قسم اللہ کی! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3816]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ کا اشارہ غزوہ موتہ میں زید کو امیر بنانے کے واقعے کی طرف ہے،
اس حدیث سے دونوں باپ بیٹوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3816   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7187  
7187. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7187]
حدیث حاشیہ:
کہ بوڑھے بوڑھے لوگ ہوتے ہوئے آپ نے ایک چھو کرے کو سردار بنا یا۔
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل مصلحت اور دور اندیشی سے خالی نہ تھا۔
ہوا یہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان رومی کافروں کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔
آپ نے ان کے بیٹے کو اس لیے سردار بنایا تھا کہ وہ اپنے باپ کے مارنے والوں کو بڑے جوش کے ساتھ لڑیں گے۔
دوسرے یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے دل کو ذرا تسلی ہوگی۔
اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنایا تھاجب وہ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ایک اکلوتا بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بے انتہا چاہتے تھے۔
یہاں تک کہ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور ایک ران پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اور فرماتے یا اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اس حدیث کے لانے سے یہاں یہ غرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لغوطعن وتشنیع پر کچھ خیال نہیں کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو سرداری سے علیحدہ نہیں کیا۔
اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے اصل شکایات پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کیوں معزول کر دیا کیونکہ ہر زمانہ اور ہر موقع کی مصلحت جدا گانہ ہوتی ہے گو سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیں تو بے اصل نکلیں مگر کسی فتنے یا فساد کے ڈر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا علیحدہ ہی کر دینا قرین مصلحت نظر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ تھا۔
بہر حال یہ امر امام کی رائے کی طرف مفوض ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7187   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7187  
7187. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7187]
حدیث حاشیہ:

حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت پر طعن کیا گیا تھا کہ کبار اور مشائخ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں اسے امیر کیوں بنایا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پروپیگنڈے کی کوئی پروانہ کی اور انھیں امارت سے الگ نہ کیا بلکہ ان کی تعریف فرمائی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے پروپیگنڈے کے پیش نظر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کی امارت سے معزول کر دیاتھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کوفے کے حالات ایسے تھے کہ انھیں معزول کرنا ضروری تھا۔
اگرامارت سے انھیں الگ نہ کیاجاتا توحالات کے بگڑ جانے کا خطرہ تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کی وضاحت بھی فرمائی، لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حالات کے خراب ہونے اور کسی قسم کے فتنے کا خطرہ نہ تھا۔

ان کے امیر مقرر کیے جانے کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے جو لشکر تشکیل دیا اس کی امارت حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی تاکہ انھیں تسلی ہو اور رومیوں سے بے جگری سے لڑیں اور پورے جوش سے ان کا مقابلہ کریں۔
بہرحال حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اس قدر پختہ کار ہوکر غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر کوئی اقدام نہ کرے بلکہ حالات کا کھلی آنکھ سے جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچے۔
(فتح الباري: 233/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7187   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.