الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
36. بَابُ الإِمَامِ يَأْتِي قَوْمًا فَيُصْلِحُ بَيْنَهُمْ:
36. باب: امام کسی جماعت کے پاس آئے اور ان میں باہم صلح کرا دے۔
(36) Chapter. The Imam (ruler) going to some people to establish peace among them.
حدیث نمبر: 7190
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد، حدثنا ابو حازم المدني، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: كان قتال بين بني عمرو، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم،" فصلى الظهر، ثم اتاهم يصلح بينهم، فلما حضرت صلاة العصر، فاذن بلال واقام، وامر ابا بكر فتقدم، وجاء النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر في الصلاة، فشق الناس حتى قام خلف ابي بكر فتقدم في الصف الذي يليه، قال: وصفح القوم، وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت حتى يفرغ، فلما راى التصفيح لا يمسك عليه، التفت، فراى النبي صلى الله عليه وسلم خلفه، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم بيده ان امضه، واوما بيده هكذا، ولبث ابو بكر هنية يحمد الله على قول النبي صلى الله عليه وسلم، ثم مشى القهقرى، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم ذلك تقدم فصلى النبي صلى الله عليه وسلم بالناس، فلما قضى صلاته، قال: يا ابا بكر ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت؟، قال: لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم النبي صلى الله عليه وسلم، وقال للقوم: إذا رابكم امر فليسبح الرجال وليصفح النساء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرٍو، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَتَاهُمْ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ وَأَقَامَ، وَأَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ، وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَشَقَّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ فِي الصَّفِّ الَّذِي يَلِيهِ، قَالَ: وَصَفَّحَ الْقَوْمُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى يَفْرُغَ، فَلَمَّا رَأَى التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَلَيْهِ، الْتَفَتَ، فَرَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ أَنِ امْضِهْ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَلَبِثَ أَبُو بَكْرٍ هُنَيَّةً يَحْمَدُ اللَّهَ عَلَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مَشَى الْقَهْقَرَى، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ تَقَدَّمَ فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ؟، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لِلْقَوْمِ: إِذَا رَابَكُمْ أَمْرٌ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ وَلْيُصَفِّحِ النِّسَاءُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ابوحازم المدینی نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں باہم لڑائی ہو گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی اور ان کے یہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لائے۔ جب عصر کی نماز کا وقت ہوا (مدینہ میں) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ وہ آگے بڑھے، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز ہی میں تھے ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی صف کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس صف میں آ گئے جو ان سے قریب تھی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو بتانے کے لیے ہاتھ مارے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا رکتا ہی نہیں تو آپ متوجہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے دیکھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ نماز پوری کریں اور آپ نے اس طرح ہاتھ سے اپنی جگہ ٹھہرے رہنے کا اشارہ کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد کرنے کے لیے ٹھہرے رہے، پھر آپ الٹے پاؤں پیچھے آ گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو آپ نے نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے فرمایا، ابوبکر! جب میں نے ارشاد کر دیا تھا تو آپ کو نماز پوری پڑھانے میں کیا چیز مانع تھی؟ انہوں نے عرض کیا، ابن ابی قحافہ کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز میں) جب کوئی معاملہ پیش آئے تو مردوں کو سبحان اللہ کہنا چاہئیے اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہئے۔

Narrated Sahl bin Sa`d As-Saidi: There was some quarrel (sighting) among Bani `Amr, and when this news reached the Prophet, he offered the Zuhr prayer and went to establish peace among them. In the meantime the time of `Asr prayer was due, Bilal pronounced the Adhan and then the Iqama for the prayer and requested Abu Bakr (to lead the prayer) and Abu Bakr went forward. The Prophet arrived while Abu Bakr was still praying. He entered the rows of praying people till he stood behind Abu Bakr in the (first) row. The people started clapping, and it was the habit of Abu Bakr that whenever he stood for prayer, he never glanced side-ways till he had finished it, but when Abu Bakr observed that the clapping was not coming to an end, he looked and saw the Prophet standing behind him. The Prophet beckoned him to carry on by waving his hand. Abu Bakr stood there for a while, thanking Allah for the saying of the Prophet and then he retreated, taking his steps backwards. When the Prophet saw that, he went ahead and led the people in prayer. When he finished the prayer, he said, "O Abu Bakr! What prevented you from carrying on with the prayer after I beckoned you to do so?" Abu Bakr replied, "It does not befit the son of Abi Quhafa to lead the Prophet in prayer." Then the Prophet said to the people, "If some problem arises during prayers, then the men should say, Subhan Allah!; and the women should clap." (See Hadith No. 652, Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 300


   صحيح البخاري7190سهل بن سعدليسبح الرجال يصفح النساء
   صحيح البخاري684سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من رابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيق للنساء
   صحيح البخاري1218سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم بالتصفيح التصفيح للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله
   صحيح البخاري1204سهل بن سعدالتسبيح للرجال التصفيح للنساء
   صحيح البخاري1234سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم في التصفيق التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه أحد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه
   صحيح مسلم949سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من نابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيح للنساء
   سنن أبي داود940سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيح من نابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيح للنساء
   سنن أبي داود941سهل بن سعديسبح الرجال ليصفح النساء
   سنن النسائى الصغرى785سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم في التصفيق التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه أحد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه ما منعك أن تصلي للناس حين أشرت إليك قال أبو بكر ما كان ينبغي لابن أبي قحافة أن يصلي ب
   سنن النسائى الصغرى1184سهل بن سعدما بالكم صفحتم إنما التصفيح للنساء إذا نابكم شيء في صلاتكم فسبحوا
   سنن النسائى الصغرى5415سهل بن سعدما لكم إذا نابكم شيء في صلاتكم صفحتم إن ذلك للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله
   سنن ابن ماجه1035سهل بن سعدالتسبيح للرجال التصفيق للنساء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم87سهل بن سعدما لي رايتكم اكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء
   مسندالحميدي956سهل بن سعديا أبا بكر، ما منعك حين أشرت إليك؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 87  
´افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت`
«. . . 408- مالك عن أبى حازم بن دينار عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة، فجاء المؤذن إلى أبى بكر فقال: أتصلي للناس فأقيم؟ فقال: نعم، فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فى الصلاة فتخلص حتى وقف فى الصف فصفق الناس وكان أبو بكر لا يلتفت فى صلاته، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى فى الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال: يا أبا بكر، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟ فقال أبو بكر: ما كان لابن أبى قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء . . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ چلتے ہوئے (اگلی صف میں) کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (دعا کے لئے) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوقحافہ کے بیٹے کی (یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ (امام) اس طرف متوجہ ہو گا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 87]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 684، ومسلم 421، من حديث مالك به، وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: وحانت الصلاة وفي رواية يحييٰ: فقال]

تفقه:
➊ جب نماز کا وقت فوت ہونے کا ڈر ہو تو پھر امام کا انتظار کرنے کے بجائے عارضی امام مقرر کرکے فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
➋ اگر شرعی عذر ہو تو صفوں میں سے گزر کر اگلی صف میں جا کر کھڑا ہو جانا جائز ہے۔ اگر کوئی شرعی عذر یا اجتہادی خطا ہو تو نماز میں عمل کثیر سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیاں بجانے والے مردوں کو نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا تھا۔
➍ نماز میں اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہئے اور اسی طرح آسمان کی طرف دیکھنا بھی منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے سامنے یا جائے نماز پر نظر رکھی جائے۔ واللہ اعلم
➎ اہلِ ایمان کا آپس میں بعض اجتہادی امور پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اختلاف کے بجائے اتفاق کی راہ نکالی جائے۔
➏ بعض اوقات نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے لیکن نماز میں منہ ہر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔ نماز کے بعد مطلق دعا میں منہ پر ہاتھ پھیرنا سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔ دیکھئے [الادب المفرد للبخاري 609 وسنده حسن لذاته وأخطأ من ضعفه]
➐ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو آدمی معذور ہے لیکن واضح ثابت شدہ مسئلے یا ضرورتِ دین میں غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو پھر معذور نہیں ہے۔
➑ افضل کے مقابلے میں مفضول کو امامت نہیں کرانی چاہئے۔
➒ اگر دو امام ہوں، ایک پہلے سے کھڑا ہو کر نماز پڑھا رہا ہو پھر دوسرا امام آئے اور بیٹھ کر نماز پڑھانا شروع کردے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھتے رہیں گے۔ اگر امام ایک ہو اور پہلے سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب لوگ بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے الموطأ حدیث: 1
➓ اس روایت سے بطریق اولیٰ اور بطریق قیاس ثابت ہے کہ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ دوسرا قائم مقام امام بن سکتا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 104/21]
◄ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً اگر امام بھول جائے تو اسے لقمہ (فتحہ) دینا جائز ہے
◄ نیز امام کے بھولنے کی صورت میں مرد حضرات تسبیح اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ مارنے کے ذریعے سے آگاہ کریں گی
◄ افضل کی اجازت سے اُس کی موجودگی میں مفضول امامت کرا سکتا ہے اور
◄ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ وغیرہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 408   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 941  
´نماز میں عورتوں کے تالی بجانے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ ظہر کے بعد مصالحت کرانے کی غرض سے ان کے پاس آئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہہ آئے کہ اگر عصر کا وقت آ جائے اور میں واپس نہ آ سکوں تو تم ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ جب عصر کا وقت ہوا تو بلال نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا تو آپ آگے بڑھ گئے، اس کے اخیر میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مرد سبحان الله کہیں اور عورتیں دستک دیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 941]
941۔ اردو حاشیہ:
➊ مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہو جائے، تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے اور بالخصوص آئمہ قوم اور ذی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔
➋ امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔
➌ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل اعتماد نائب تھے اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انہیں منصب خلافت کے لئے منتخب کیا۔
➍ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی۔ امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بےچینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجائیں۔
➎ لاعلمی سے جو عمل ہو جائے وہ معاف ہے، جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجائیں۔ مگر علماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
➏ اثنائے قرات میں حمد اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 941   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 785  
´امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 785]
785 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب اور ارباب اختیار صرف اس انتظار میں نہ رہیں کہ لوگ لڑنے کے بعد آئیں گے تو فیصلہ کروں گا بلکہ جھگڑے کی اطلاع ملنے پر فوراًً کاروائی کریں اور صلح کی کوشش کریں۔
➋ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر مجھے دیر ہو جائے تو ابوبکر سے کہنا کہ جماعت کرا دیں۔
➌ دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے مثلاً: وہ اہل علم و فضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی۔ یاد رہے کہ امام کے سامنے موجود سترہ مقتدیوں کے لیے کفایت کرتا ہے جس سے نمازیوں کے درمیان سے گزرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2 تحت حديث: 684]
➍ تالی بجانے کا حکم تو عورتوں کے لیے ہے۔ یہ معنیٰ جمہور اہل علم کے قول کے مطابق ہیں یعنی اگر عورت کے لیے امام کو متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی انگلیاں مارے کیونکہ ہتھیلی پر مارنا لہو و لعب کے لیے ہوتا ہے جو نماز کے لائق نہیں۔ نماز میں مذکورہ طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ تالی بجانے کا مطلب یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس جملے کے معنیٰ یوں کیے ہیں۔ تالی بجانا عورتوں کا کام ہے۔ یعنی یہ تو عورتوں کی فضول عادت ہے۔ گویا آپ تالی کی حرمت فرما رہے ہیں۔ نماز میں یہ مردوں کے لیے جائز ہے نہ عورتوں کے لیے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورتیں بھی ضرورت کے موقع پر سبحان اللہ ہی کہیں گی لیکن یہ مفہوم صحیح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔ دیکھیے: [صحیح البخاري العمل في الصلاة حدیث: 1253 و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: 422]
اس کی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز جاری رکھنے کا اشارہ کرنا بطور تکریم و تشریف تھا نہ کہ بطور حکم ورنہ ان کے لیے پیچھے ہٹنا جائز نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اٹھا کر اپنی بے حیثیتی کا اظہار کرنا اور حمد و ثنا کرنا اور پیچھے ہٹ آنا اس توجیہ کی تائید کرتا ہے۔ نماز کے بعد آپ کا استفسار کرنا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب دینا لوگوں کو اسی توجیہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھا۔ کسر نفسی کا عظیم اظہار ہے کہ اپنے آپ کو معروف نام سے ذکر کرنے کی بجائے ابوقحافہ کا بیٹا کہا: جو غیر معروف تھا۔ رضي اللہ عنه و أرضاه۔
➏ مستقل امام کی جگہ مقتدیوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو جب امام آ جائے تو اس کا پیچھے ہٹنا اور مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا جائز ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ مالکی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ لیکن اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور واقعات کو جمع کیا جائے تو راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا اور پہلے امام کا پیچھے ہٹنا اس صورت میں جائز ہے جب مستقل امام نماز کے ابتدا میں آئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے لیکن اگر نماز کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں مستقل امام کو عارضی امام کی اقتدا ہی میں نماز ادا کر لینی چاہیے جیسا کہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز فجر ادا کی تھی کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک رکعت ادا کرچکے تھے۔ اگر اسے مطلقاً جائز سمجھ لیا جائے یعنی امام نماز کا کچھ حصہ ادا کرچکا ہو پھر بھی آگے پیچھے ہونا جائز ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ بعد میں پیچیدگیوں کا باعث بنے گا مثلاً: سلام وغیرہ کے مسئلہ میں لہٰذا راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابتدا میں جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 785   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7190  
7190. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7190]
حدیث حاشیہ:
قبیلہ بنی عمر بن عوف میں آپ صلح کرانے گئے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا‘ اس میں امام کی کسر شان نہیں ہے بلکہ یہ اس خوبی ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7190   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7190  
7190. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7190]
حدیث حاشیہ:

کامیاب مثالی حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات وسہولیات کا پوراپورا خیال رکھے اور عدل وانصاف ان کے دروازے تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔
جب کہیں ان میں گڑ بڑ کا پتا چلے تو فوراً اس کے سد باب کا اہتمام کرے۔
اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ حاکم وقت وہاں جائے اور حالات کا جائزہ لے، چنانچہ قبیلہ بنوعمرو جو قباء میں رہائش رکھے ہوئے تھا ان میں لڑائی ہوئی۔
نوبت پتھراؤ کرنے تک جاپہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا چلیں، ان کے درمیان صلح کرادیں۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693)
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، فریقین کے بیانات سنے اور ان کے درمیان صلح کرادی۔
اس طرح جھگڑا بھی ختم ہوگیا اور مقامی احباب کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ ہمارے سربراہ ہمارے پاس چل کر آئے ہیں۔

بہرحال ایسے معاملات میں حاکم وقت کو دلچسپی لینی چاہیے اور اسے اپنی شان کے خلاف خیال نہ کرے جیسا کہ عام طور پر صاحب اقتدار حضرات کویہ "بیماری" لاحق ہو جاتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7190   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.