الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
5. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالْبِدَعِ:
5. باب: کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا۔
(5) Chapter. What is disliked of going deeply into and arguing about (religious) knowledge, and exaggerating in matter of religion, and of inventing heresies.
حدیث نمبر: 7301
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا مسلم، عن مسروق، قال: قالت عائشة رضي الله عنها: صنع النبي صلى الله عليه وسلم شيئا ترخص فيه وتنزه عنه قوم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه، فوالله إني اعلمهم بالله واشدهم له خشية".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا تَرَخَّصَ فِيهِ وَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ، فَوَاللَّهِ إِنِّي أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، واللہ! میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔

Narrated `Aisha: The Prophet did something as it was allowed from the religious point of view but some people refrained from it. When the Prophet heard of that, he, after glorifying and praising Allah, said, "Why do some people refrain from doing something which I do? By Allah, I know Allah more than they."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 404


   صحيح البخاري6101عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح البخاري7301عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6111عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6109عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   مشكوة المصابيح146عائشة بنت عبد اللهما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه فوالله إني لاعلمهم بالله واشدهم له خشية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 146  
´اس کا نام اسلام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لأعلمهم بِاللَّه وأشدهم لَهُ خشيَة» . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور اس کے کرنے کی اجازت اور رخصت بھی دے دی لیکن بعض لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ اور اس رخصت کو منظور نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے شرعی رخصت کو نہیں قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اللہ کی تعریف و شان بیان کرنے کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ جس کو میں کرتا ہوں اس سے یہ لوگ کنارہ کشی اختیار کر کے پرہیز کرتے اور اس کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کی خوشنودی اور اس کی مرضی کو سب سے زیادہ جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 146]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 6101]،
[صحيح مسلم 6109]

فقہ الحدیث:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بہترین نمونہ زندگی ہے جسے ہر وقت خوشی اور محبت سے اپنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئیے۔
➋ قرآن و حدیث کی مخالفت اور بدعات کی پیروی سے ہر وقت بچنا ضروری ہے۔
➌ دربار الٰہی میں صرف وہی عمل معتبر و مقبول ہے جس پر قرآن و حدیث کی مہر ثبت ہو۔
➍ آپ نے کون سا کام کیا تھا؟ اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ظاہر ہے اس سے مراد رات کے بعض حصے میں نیند کرنا اور بعض دنوں میں نفلی روزے نہ رکھنا ہے، آپ نے شادیاں بھی کیں۔ ديكهئے: [مرعاة المفاتيح 1ص 242] «والله اعلم»
↰ کتاب و سنت کے خلاف امور کا خطبہ میں اعلانیہ رد کرنا مسنون ہے , لیکن خاص آدمی کا نام لینے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے محبت اور رحمت للعالمین ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ بات کا رد تو فرما دیا، لیکن خطبے میں اپنے ان صحابہ کا نام نہیں لیا جنہوں نے اجتہادی لغزش کی وجہ سے مسنون کام سے اجتناب کرنے کا اظہار کیا تھا۔ داعی کو یہ طرز عمل ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئیے۔
➏ بعض اوقات موقع کی مناسبت سے صراحت کی بجاے اشارے کنایہ میں سمجھایا جا سکتا ہے , جیسا کہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں استدلال کیا ہے۔ ديكهيے: [صحيح بخاري مع فتح الباري 513/10 باب من لم يواجه الناس بالعتاب]
➐ دنیا کا کوئی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہو سکتا چاہے کتنے ہی نیک اعمال کرے اور علم کا کتنا ہی بڑا پہاڑ بن جائے، کجا یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ جائے؟ ایسا تصور سرے سے باطل اور محال ہے۔
↰ یہاں پر بطور رد عرض ہے کہ ایک شخص نے لکھا ہے: انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں۔ باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں اور۔۔۔۔
◄ عرض ہے کہ اس شخص کا عقیدہ باطل اور مردود ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ امتیوں کے مساوی (برابر) ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کجا یہ کہ بڑھ جانے کا دعویٰ کر دیا جائے۔!
◄ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ ساری امت بلکہ ساری کائنات کے علوم و اعمال مل کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و اعمال تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت لمبی عمر مل جائے اور وہ نیکیوں کے انبار لگا دے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عام صحابی کے درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لو وزن ايمان ابي بكر بايمان اهل الارض لرجح به .»
اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا ساری زمین والوں کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ان (سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہو گا۔ [السنة لعبدالله بن أحمد بن حنبل قلمي ص49 ب ح 821، مطبوع 378/1 و سند حسن]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنا چاہئیے کیوں کہ بندہ ذرہ سی گستاخی سے بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے ساتھ رب العالمین کے غضب اور ابدی عذاب کا حقدار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔ «آمين»
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے سے کبھی شرمانا نہیں چاہئیے، جو کہ احادیث کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ بعض ملحدین اور بے دین لوگ داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر ازار پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، ایسے اعتراضات اور طعن و تشنیع سے قطعًا گھبرانا نہیں چاہئیے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین ہونا چاہئیے۔
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمت للعالمین ہیں۔
➓ اگر سنت میں کسی بات کی رخصت موجود ہے تو خواہ مخواہ تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ بعض لوگ تصوف کے جال میں پھنس کر مصنوی پرہیزگاری پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ سخت گرمیوں کی دھوپ میں اور سخت سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح کے سارے اعمال خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7301  
7301. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے کوئی کام کیا جس میں لوگوں کے لیے رخصت کاپہلو تھا۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس سے احتزاز کیا۔ نبی ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ایسے تمام لوگوں سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اپنے اندر خشیت رکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7301]
حدیث حاشیہ:
داؤدی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکام کیا، اس سے بچنا اس کو خلاف تقویٰ سمجھنا بڑا گناہ ہے بلکہ الحاد اور بے دینی ہے۔
میں کہتا ہوں جو کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو تقویٰ یا اولیٰ کے خلاف یا آپ کی عبادت کو بے حقیقت سمجھے اس سے کہنا چاہیے تجھ کوتقویٰ کہاں سے معلوم ہوا اور تو نے عبادت کیا سمجھی نہ تو نے خدا کو دیکھا نہ تو خدا سے ملا جو کچھ تو نے حاصل کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے۔
پھر خدا کی مرضی تو کیا جانے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بتلایا اسی میں خدا کی مرضی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7301   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7301  
7301. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے کوئی کام کیا جس میں لوگوں کے لیے رخصت کاپہلو تھا۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس سے احتزاز کیا۔ نبی ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ایسے تمام لوگوں سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اپنے اندر خشیت رکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7301]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیا اس سے پرہیز کرنا یا اسے خلاف تقوی خیال کرنا بہت بڑا گناہ بلکہ بے دینی اور الحاد ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو تقوی کہاں سے معلوم ہوا؟ امت کو جو کچھ ملا ہے وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہی سے ملا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو اپنی رضا قرار دیا۔
مثلاً:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کی ہیں۔
اب اگر کوئی شخص شادی کو تقوی کے منافی سمجھتا ہے تو اس کا یہ خیال اور اس کی سوچ شریعت کے خلاف ہے۔
اس کا یہ اقدام کسی صورت میں مستحسن نہیں کسی نے خوب کہا ہے۔
خلاف پیغمبرکسے راہ گزید۔
۔
۔
۔
کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7301   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.