الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
فتنے اور علامات قیامت
The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour
19. باب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ:
19. باب: ابن صیاد کا بیان۔
حدیث نمبر: 7350
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا سالم بن نوح ، اخبرني الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: " خرجنا حجاجا او عمارا، ومعنا ابن صائد، قال: فنزلنا منزلا، فتفرق الناس وبقيت انا وهو، فاستوحشت منه وحشة شديدة مما يقال عليه، قال: وجاء بمتاعه فوضعه مع متاعي، فقلت: إن الحر شديد، فلو وضعته تحت تلك الشجرة، قال: ففعل، قال: فرفعت لنا غنم فانطلق فجاء بعس، فقال: اشرب ابا سعيد، فقلت: إن الحر شديد واللبن حار، ما بي إلا اني اكره ان اشرب عن يده، او قال: آخذ عن يده، فقال ابا سعيد: لقد هممت ان آخذ حبلا، فاعلقه بشجرة، ثم اختنق مما يقول لي الناس: يا ابا سعيد من خفي عليه حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما خفي عليكم معشر الانصار، الست من اعلم الناس بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو كافر، وانا مسلم، اوليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو عقيم لا يولد له، وقد تركت ولدي بالمدينة، اوليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل المدينة ولا مكة، وقد اقبلت من المدينة وانا اريد مكة، قال ابو سعيد الخدري: حتى كدت ان اعذره، ثم قال: اما والله إني لاعرفه واعرف مولده واين هو الآن، قال: قلت له: تبا لك سائر اليوم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا، وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ، فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ، قَالَ: وَجَاءَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ، فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَاءَ بِعُسٍّ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ، مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ، أَوَ قَالَ: آخُذَ عَنْ يَدِهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا، فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ، ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ كَافِرٌ، وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ، وَقَدْ تَرَكْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ، وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: حَتَّى كِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ ".
جریری نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ کہا: میں نے اس سے کہا: باقی سارا دن تیرے لئے تباہی اور ہلاکت ہو! (تیرا اس سے اتنا قرب کیسے ہوا؟)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید ؓ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کس جگہ ہےتو میں نے اس کو کہا،تیرے لیے آئندہ کے لیے بھی تباہی ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2927

   صحيح مسلم7349سعد بن مالكألم يقل رسول الله إنه يهودي وقد أسلمت قال ولا يولد له وقد ولد لي وقال إن الله قد حرم عليه مكة وقد حججت
   صحيح مسلم7350سعد بن مالكألم يقل رسول الله هو كافر وأنا مسلم أوليس قد قال رسول الله هو عقيم لا يولد له وقد تركت ولدي بالمدينة أوليس قد قال رسول الله لا يدخل المدينة ولا مكة وقد أقبلت من المدينة وأنا أريد مكة
   جامع الترمذي2246سعد بن مالكألم يقل رسول الله إنه كافر وأنا مسلم ألم يقل رسول الله إنه عقيم لا يولد له وقد خلفت ولدي بالمدينة ألم يقل رسول الله لا يدخل أو لا تحل له مكة والمدينة ألست من أهل المدينة وهو ذا أنطلق معك إلى مكة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2246  
´ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چنانچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2246]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیا تھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتا رہا اور مجھے تجھ سے بد گمانی ہوگئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا،
یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2246   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.