7353. سیدنا عبید بن عمیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے سیدنا عمر فاروق ؓ سے اجازت طلب کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو کسی کام میں مصروف پاکر آپ واپس چلے گئے۔ پھر (فراغت کے بعد) سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس ؓ کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں اجازت دے دو۔ جب انہیں بلایا گیا تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس پر کوئی گواہ پیش کرو بصورت دیگر میں تمہارے ساتھ ایسا ایسا کروں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ ؓ یہ سن کر انصار کی مجلس میں گئے تو انہوں نے کہا: اس کے لیے تو ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی گواہی دے سکتا ہے، پھر سیدنا ابو سعید خدری ؓ اٹھے اور انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7353]
حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔
اس کے باوجود استیذان
(اجازت طلب کرنے) کا حکم ان سے مخفی رہا، حتی کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے انھیں اس امر کا علم ہوا۔
جب انھیں پتا چلا تو فوراً تسلیم کرلیا۔
یہ کوئی عیب بھی نہیں ہے۔
2۔
ہرمومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہونے پر سرتسلیم خم کردے، چنانچہ درج ذیل مثالوں سے اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے:
۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جدہ
(دادنی، نانی) کی میراث کا علم نہیں تھا۔
انھیں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا۔
۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم نہ تھا کہ خاوند کی دیت سے بیوی حصہ پاتی ہے یا نہیں توانھیں حدیث کے حوالے سے حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگاہ کیا۔
۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپتا نہیں تھا کہ خاوند کی وفات کے بعد بیوی عدت کہاں گزارے؟ انھیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطلاع دی اور حدیث کا حوالہ دیا۔
۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اوروہ حاملہ ہوتو جو لمبی عدت ہو اسے وہ گزارنا ہوگی، انھیں سبیعہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا واقعہ بتاکر مسئلے سے آگاہ کیا۔
۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنبی کے لیے روزہ رکھنے کے قائل نہ تھے، انھیں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود اپنا معمول بتاکر اس موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔
3۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لیے اپنے پڑوسی انصاری صحابی سے یہ طے کیا تھا کہ وہ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کریں گے، حاضری دینے والا دوسرے کو علمی مسائل سے آگاہ کرے گا۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 89) اس کے باوجود کچھ احادیث کا انھیں علم نہ ہوسکا، چنانچہ:
ب۔
موزوں پر مسح کرنے کے متعلق انھیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگاہ کیا۔
ج۔
ہاتھ کی تمام انگلیاں دیت کے اعتبار سے برابر ہیں، ان میں چھوٹی بڑی کا فرق نہیں کیا جائے گا۔
اس بات کا علم انھیں عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔
اس طرح متعدد مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم نہیں تھا۔
(فتح الباري: 393/13) نوٹ:
۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث کی ثقاہت اور تائید کے لیے شہادت طلب کی تھی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خبر واحد کو قبول کرنے کے قائل نہ تھے کیونکہ ایک آدمی کی شہادت کے باوجود بھی وہ خبر واحد ہی رہتی ہے حد تواتر کونہیں پہنچ پاتی۔
واللہ المستعان۔