الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} :
19. باب: اللہ تعالیٰ نے (شیطان سے) فرمایا ”تو نے اس کو کیوں سجدہ نہیں کیا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: “... To one whom I have created with Both My Hands...” (V.38:75)
حدیث نمبر: 7415
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، سمعت إبراهيم، قال: سمعت علقمة، يقول: قال عبد الله:" جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم من اهل الكتاب، فقال: يا ابا القاسم إن الله يمسك السموات على إصبع، والارضين على إصبع، والشجر والثرى على إصبع، والخلائق على إصبع، ثم يقول: انا الملك، انا الملك، فرايت النبي صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه، ثم قرا: وما قدروا الله حق قدره سورة الانعام آية 91.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلَائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الْمَلِكُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَرَأَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم سے سنا، کہا کہ میں نے علقمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابوالقاسم! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روک لے گا، زمین کو ایک انگلی پر روک لے گا، درخت اور مٹی کو ایک انگلی پر روک لے گا اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر روک لے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس پر ہنس دئیے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے، پھر یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره‏» ۔

Narrated `Abdullah: A man from the people of the scripture came to the Prophet and said, "O Abal-Qasim! Allah will hold the Heavens upon a Finger, and the Earth on a Finger and the land on a Finger, and all the creation on a Finger, and will say, 'I am the King! I am the King!' " I saw the Prophet (after hearing that), smiling till his premolar teeth became visible, and he then recited: -- 'No just estimate have they made of Allah such as due to him... (39.67)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 511


   صحيح البخاري7513عبد الله بن مسعوديوم القيامة جعل الله السموات على إصبع والأرضين على إصبع والماء والثرى على إصبع والخلائق على إصبع ثم يهزهن ثم يقول أنا الملك أنا الملك فلقد رأيت النبي يضحك حتى بدت نواجذه تعجبا وتصديقا لقوله ثم قال النبي وما قدروا الله حق قدره إلى قوله ي
   صحيح البخاري4811عبد الله بن مسعودوما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه عما يشركون
   صحيح البخاري7414عبد الله بن مسعودضحك رسول الله حتى بدت نواجذه ثم قرأ وما قدروا الله حق قدره
   صحيح البخاري7451عبد الله بن مسعودضحك رسول الله وقال وما قدروا الله حق قدره
   صحيح البخاري7415عبد الله بن مسعودضحك حتى بدت نواجذه ثم قرأ وما قدروا الله حق قدره
   صحيح مسلم7048عبد الله بن مسعودالله يمسك السموات على إصبع والأرضين على إصبع والشجر والثرى على إصبع والخلائق على إصبع ثم يقول أنا الملك أنا الملك قال فرأيت النبي ضحك حتى بدت نواجذه ثم قرأ وما قدروا الله حق قدره
   صحيح مسلم7048عبد الله بن مسعودوما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه عما يشركون
   جامع الترمذي3238عبد الله بن مسعودوما قدروا الله حق قدره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7415  
7415. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھے گا تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درخت اور گیلی مٹی ایک انگلی اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: انہوں نے اللہ کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7415]
حدیث حاشیہ:
آگے مذکورہے (وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)
اس دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی۔
سلف صالحین نےان صفات کی تاویل کوپسند نہیں فرمایا ہے۔
و ھذا ھو الصراط المستقیم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7415  
7415. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھے گا تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درخت اور گیلی مٹی ایک انگلی اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: انہوں نے اللہ کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7415]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں ہیں جن کی صراحت ان احادیث میں بیان ہوئی ہے لیکن علامہ خطابی فرماتے ہیں، انگلیوں کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور نہ کسی قطعی الثبوت حدیث ہی میں ان کی وضاحت ہے، علاوہ ازیں ہاتھ سے مراد بھی عضو نہیں کہ اس کے ثابت ہونے سے انگلیوں کا ثبوت فراہم ہو۔
مذکورہ احادیث میں انگلیوں کا ذکر یہودی عالم کی کارستانی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات پر ہنسنا یہ انکار کے طور پر تھا۔
راوی کا یہ اپنا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنسےتھے۔
اس گمان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
(اعلام الحدیث: 1903/3)

ہمیں علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق تاویل کرنے والوں کی ہمنوائی میں اس حد تک تجاوز کرجائیں گے۔
ہمارے نزدیک انگلیوں کا ذکر بایں طور پر قرآن مجید میں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو چیز تمھیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کر دے اس سے رُک جاؤ۔
(الحشر: 7)
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں، ہتھیلی، دائیں ہاتھ اور مٹھی وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں بلکہ قرآن مجید ہے:
(بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ)
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔
(المآئدة: 64)
اس کے علاوہ دیگر آیات بھی پیش کی جا سکتی ہیں، پھر مذکورہ قطعی الثبوت احادیث میں انگلیوں کا ذکر ہے۔
جب صحیح احادیث میں کسی بات کا ذکر ہوتو اس کا قبول کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق اعمال سے ہو یا عقائد سے لیکن اہل بدعت کا کہنا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کا ذکر قرآن میں یا متواتر احادیث میں ہونا ضروری ہے۔
ان کا یہ قاعدہ خود ساختہ اور محدثین کے اصولوں کے خلاف ہے۔

علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان صفات کا ذکر کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب وہی تھے جو عربی زبان سمجھتے اور اس کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔
کسی ضعیف حدیث سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔
کسی ضعیف حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل نہ کرنے کی تلقین کی ہو۔
کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ باور کہا جا سکتا ہے کہ وہ بندوں سے ایسا خطاب کریں جس کا ظاہری مفہوم کفرہو؟ جیسا کہ تاویل کرنے والوں کا کہنا ہے۔
عافیت اسی میں ہے کہ ہم تسلیم ورضا پر عمل کرتے ہوئے ان نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو حقیقی ہاتھ ہیں جو اس کے شایانِ شان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کی انگلیوں پر قیامت کے دن زمین وآسمان اور دیگر مخلوقات کو رکھ کر انھیں جھٹکا دے کر اپنی بادشاہت کا اعلان کرے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک طویل اور غلط بات بیان کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تکذیب کرنے کے بجائے اس پر ہنس دیں۔
ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم کی بات سن کر ہنس دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اسے تسلیم کرنے کی علامت ہے، چنانچہ امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا نبی اس بات سے بلند وبالا ہے کہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی صفت بیان کی جائے جو اس کے شایان ِ شان نہ ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تردید کرنے کی بجائے وہاں ہنس دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔
(کتاب التوحید ص 76)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم سے یہ بیان سن کر ہنسنا انکار کے طور پر نہیں بلکہ اس بیان کی تصدیق تھا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی صراحت کی ہے۔
جلیل القدر صحابی کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اپنا گمان ہے، بہت دلیری اور جسارت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔
قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ ان باتوں سے پاک اوربالاتر ہے جو یہ لوگ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔
(الزمر: 67)
گویا مشرکین کے تمام معبودان ِ باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا ذکر دیگر احادیث میں بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اولاد آدم کے رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا کہ ایک ہی دل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ انھیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی:
(اللَّٰهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ)
اے دلوں کے پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔
(مسند أحمد: 168/1)

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قرآن مجید، احادیث نبویہ اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال میں لفظ "ید" سو مرتبہ سے زیادہ ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، ان کی صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حقیقی ہاتھ ہےمثلاً:
پکڑنا، لپیٹنا، پھیلانا، سکیڑنا، مصافحہ کرنا، خمیر گوندھنا، لکھنا اس کا دایاں بایاں ہونا۔
ان کا خیروبرکت سے بھر پور ہونا اور جنت عدن میں درخت لگانا وغیرہ۔
ان تمام اعمال صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے حقیقی دو ہاتھ ہیں جن کی اور کوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور یہ ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں سے قطعاً مشابہت نہیں رکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان انھیں تسلیم کرنا اور ان پر یقین کرنا ضروری ہے۔
(مختصر الصواعق ص 348)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7415   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.