الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
58. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ
58. باب: عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 771
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، قال: شهدت عمر بن الخطاب في يوم النحر، بدا بالصلاة قبل الخطبة، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم " ينهى عن صوم هذين اليومين اما يوم الفطر ففطركم من صومكم وعيد للمسلمين، واما يوم الاضحى فكلوا من لحوم نسككم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف اسمه سعد ويقال له مولى عبد الرحمن بن ازهر ايضا، وعبد الرحمن بن ازهر هو ابن عم عبد الرحمن بن عوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ، بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَنْهَى عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَعِيدٌ لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ اسْمُهُ سَعْدٌ وَيُقَالُ لَهُ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ أَيْضًا، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْهَرَ هُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 66 (1990)، والأضاحی 16 (5571)، صحیح مسلم/الصیام 22 (1137)، سنن ابی داود/ الصیام 48 (2416)، سنن ابن ماجہ/الصیام 36 (1722)، (تحفة الأشراف: 10663)، موطا امام مالک/العیدین 2 (5) مسند احمد (1/40) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضاء اس پر لازم آئے گی اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا، ان کی قضاء کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1722)

   صحيح البخاري1990عمر بن الخطابيومان نهى رسول الله عن صيامهما يوم فطركم من صيامكم اليوم الآخر تأكلون فيه من نسككم
   صحيح مسلم2671عمر بن الخطابهذين يومان نهى رسول الله عن صيامهما يوم فطركم من صيامكم الآخر يوم تأكلون فيه من نسككم
   جامع الترمذي771عمر بن الخطابينهى عن صوم هذين اليومين أما يوم الفطر ففطركم من صومكم وعيد للمسلمين أما يوم الأضحى كلوا من لحوم نسككم
   سنن أبي داود2416عمر بن الخطابصيام هذين اليومين أما يوم الأضحى فتأكلون من لحم نسككم أما يوم الفطر ففطركم من صيامكم
   سنن ابن ماجه1722عمر بن الخطابنهى عن صيام هذين اليومين يوم الفطر يوم الأضحى أما يوم الفطر فيوم فطركم من صيامكم يوم الأضحى تأكلون فيه من لحم نسككم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم219عمر بن الخطابيومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم والآخر يوم تاكلون منه من نسككم
   مسندالحميدي8عمر بن الخطابإن هذا يوم اجتمع فيه عيدان للمسلمين فمن كان هاهنا من أهل العوالي فأحب أن يذهب فقد أذنا له، ومن أحب أن يمكث فليمكث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 219  
´نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے`
«. . . ثم شهدت العيد مع على بن ابى طالب وعثمان محصور فجاء فصلى ثم انصرف فخطب . . .»
. . . پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی نماز پڑھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں تھے انہوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے آ کر نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 219]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1990، ومسلم 1137، من حديث مالك به]

تفقه
➊ عید کی نماز کے بعد خطبہ عید مسنون ہے لہٰذا نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے۔
➋ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا تھے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے پہلے نماز عید پڑھاتے تھے۔ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی مروی ہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم 885/2، [2045] نيز ديكهئے صحيح البخاري 977] جابر بن عبد اللہ الانصاری [صحيح بخاري: 961 وصحيح مسلم: 885] عبداللہ بن عمر [صحيح بخاري: 957، صحيح مسلم: 888] ابوسعید الحذری [صحيح بخاري: 956، صحيح مسلم: 889] براء بن عازب [صحيح بخاري: 983، وصحيح مسلم: 1961 [5075] ] انس بن مالك [صحيح بخاري: 984، صحيح مسلم: 1962 [5080] ] جندب [صحيح بخاري: 985، صحيح مسلم: 1960 [5067] ] رضي الله عنهم اجمعين۔
معلوم ہوا کہ یہ حدیث متواتر ہے پھر بھی بعض لوگ ایسے تھے جو نماز عید سے پہلے خطبہ دیتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ عمل احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔
➍ اگر جمعہ اور عید اکٹھے ہو جائیں یعنی جمعہ کے دن عید ہو تو جمعہ میں اختیار ہے چاہے جمعہ پڑھے یا نماز ظہر ادا کرے۔ ایاس بن ابی رملہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاں حاضر تھا اور وہ سیدنا زید بن ارقم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تمہاری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کبھی دو عیدیں (جمعہ اور عید) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوئی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: تو آپ نے کیسے کیا؟ (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: «مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّيْ» جو پڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے۔ [سنن ابي داؤد: 1070، وسنده حسن، سنن النسائي: 1592، سنن ابن ماجه: 1310]
یاد رہے کہ نماز ظہر کی ادائیگی اسی طرح فرض ہے جس طرح عام دنوں میں ہے لہٰذا بعض الناس کا یہ کہنا کہ عید اور جمعہ اکٹھے ہونے کی صورت میں نماز ظہر میں بھی اختیار ہے، چاہے پڑھو یا نہ پڑھو۔ صحیح نہیں ہے۔
➎ جمعہ اور عید ایک ہی دن میں دو عیدوں کا اجتماع ہے اور باعث مزید مسرت و سعادت ہے، اسے نامبارک سمجھنا جہالت و بدعت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1722  
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔`
ابوعبید (سعد بن عبید الزہری) کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید شروع کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک تو عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، رہا عید الفطر کا دن تو وہ تمہارے روزے سے افطار کا دن ہے، اور رہا عید الاضحی کا دن تو اس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1722]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز عید کا خطبہ نماز کے بعد ہو تا ہے
(2)
عید کے خطبے میں عید کے متعلق مسائل بیا ن کرنے چاہیں۔

(3)
عیدین کے دن روزہ رکھنا منع ہے کیو نکہ اس دن روزہ رکھنا گویا مسلمانو ں کی اجتماعی خوشی سے لاتعلق ہونے کا اظہا ر ہے جو ایک مسلمان کا کام نہیں۔

(4)
عید الفطر کے دن روزہ رکھنے سے عملی طور پر روزوں سے فا رغ نہ ہو نے کا اظہار ہو تا ہے اس طر ح گویا کہ اللہ کے مقرر کردہ فرض میں خود ساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جو بہت برا فعل ہے
(5)
  جس طرح قربانی کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اس طرح قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ کھا پی لینا بھی اللہ کی نعمت کا شکر ہے اس دن روزہ رکھنا اس شکر سے پہلوتہی اور اللہ کی نعمت کی نا شکر ی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1722   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 771  
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 771]
اردو حاشہ:
1؎:
علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو،
اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنو ں میں روزہ رکھنے کی نذرمان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضا اس پر لازم آئے گی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا،
ان کی قضا کرے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 771   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.