(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا حميد ، عن انس بن مالك ، قال: ارادت بنو سلمة ان يتحولوا من ديارهم إلى قرب المسجد، فكره النبي صلى الله عليه وسلم ان يعروا المدينة، فقال:" يا بني سلمة الا تحتسبون آثاركم"، فاقاموا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَرَادَتْ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْ دِيَارِهِمْ إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ، فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْرُوا الْمَدِينَةَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي سَلِمَةَ أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ"، فَأَقَامُوا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا: ”بنو سلمہ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے؟“، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 654)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 33 (655)، مسند احمد (3/106، 182، 263) (صحیح)»
It was narrated that Anas said:
"Banu Salimah wanted to move from their homes to somewhere near the mosque, but the Prophet did not want the outskirts of Al-madinah to be left vacant, so he said: 'O Banu Salimah, do you not hope for the reward of your footsteps?' So they stayed (where they were)."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث784
´مسجد سے جو جنتا زیادہ دور ہو گا اس کو مسجد میں آنے کا ثواب اسی اعتبار سے زیادہ ہو گا۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا: ”بنو سلمہ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے؟“، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 784]
اردو حاشہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی کے قریب رہائش اختیار کرنے سے منع فرمایا تاکہ شہر کی سرحدیں محفوظ رہیں اور دشمن اچانک حملہ نہ کرسکیں۔
(2) بنو سلمہ کا مقصد بھی نیک تھا لیکن ان کے رہائش تبدیل نہ کرنے میں مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی مفاد پر اجتماعی فائدے کو فوقیت حاصل ہے بشرطیکہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم نہ آتی ہو، (3) مسجد سے دور رہنے والوں کو بھی نماز باجماعت میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ انھیں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 784