الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
7. بَابُ : إِذَا تَقَدَّمَ الرَّجُلُ مِنَ الرَّعِيَّةِ ثُمَّ جَاءَ الْوَالِي هَلْ يَتَأَخَّرُ
7. باب: امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟
Chapter: When a man from the people comes forward (to lead the prayer) then the ruler comes-should he step back?
حدیث نمبر: 785
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه ان بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم في اناس معه فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم فحانت الاولى فجاء بلال إلى ابي بكر فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة فهل لك ان تؤم الناس قال: نعم إن شئت فاقام بلال وتقدم ابو بكر فكبر بالناس وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف واخذ الناس في التصفيق وكان ابو بكر لا يلتفت في صلاته فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يامره ان يصلي فرفع ابو بكر يديه فحمد الله عز وجل ورجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس فلما فرغ اقبل على الناس فقال:" يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم في التصفيق إنما التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه احد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه يا ابا بكر ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك". قال: ابو بكر ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَانَتِ الْأُولَى فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ: نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ بِالنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ وَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ حِينَ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِلَّا الْتَفَتَ إِلَيْهِ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ". قَالَ: أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 48 (684)، العمل في الصلاة 3 (1201)، 5 (1204)، 16 (1218)، السھو 9 (1234)، الصلح 1 (2690)، الأحکام 36 (7190)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، وقد أخرجہ: مسند احمد 5/336، 338، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404، 1405) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ۷۹۴ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ۲؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آ جائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري7190سهل بن سعدليسبح الرجال يصفح النساء
   صحيح البخاري684سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من رابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيق للنساء
   صحيح البخاري1218سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم بالتصفيح التصفيح للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله
   صحيح البخاري1204سهل بن سعدالتسبيح للرجال التصفيح للنساء
   صحيح البخاري1234سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم في التصفيق التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه أحد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه
   صحيح مسلم949سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من نابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيح للنساء
   سنن أبي داود940سهل بن سعدما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيح من نابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه التصفيح للنساء
   سنن أبي داود941سهل بن سعديسبح الرجال ليصفح النساء
   سنن النسائى الصغرى785سهل بن سعدما لكم حين نابكم شيء في الصلاة أخذتم في التصفيق التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه أحد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه ما منعك أن تصلي للناس حين أشرت إليك قال أبو بكر ما كان ينبغي لابن أبي قحافة أن يصلي ب
   سنن النسائى الصغرى1184سهل بن سعدما بالكم صفحتم إنما التصفيح للنساء إذا نابكم شيء في صلاتكم فسبحوا
   سنن النسائى الصغرى5415سهل بن سعدما لكم إذا نابكم شيء في صلاتكم صفحتم إن ذلك للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله
   سنن ابن ماجه1035سهل بن سعدالتسبيح للرجال التصفيق للنساء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم87سهل بن سعدما لي رايتكم اكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء
   مسندالحميدي956سهل بن سعديا أبا بكر، ما منعك حين أشرت إليك؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 87  
´افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت`
«. . . 408- مالك عن أبى حازم بن دينار عن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم وجاءت الصلاة، فجاء المؤذن إلى أبى بكر فقال: أتصلي للناس فأقيم؟ فقال: نعم، فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فى الصلاة فتخلص حتى وقف فى الصف فصفق الناس وكان أبو بكر لا يلتفت فى صلاته، فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر يديه فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك ثم استأخر حتى استوى فى الصف وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال: يا أبا بكر، ما منعك أن تثبت إذ أمرتك؟ فقال أبو بكر: ما كان لابن أبى قحافة أن يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لي رأيتكم أكثرتم من التصفيق، من نابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء . . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کی طرف صلح کرانے کے لئے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے آ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ چلتے ہوئے (اگلی صف میں) کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں پھر انہوں نے نگاہ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (دعا کے لئے) دونوں ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم اپنی جگہ کیوں نہ ٹھہرے رہے؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوقحافہ کے بیٹے کی (یعنی میری) یہ طاقت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں دیکھا تم کثرت سے تالیاں بجا رہے تھے؟ اگر نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ سبحان اللہ کے بعد وہ (امام) اس طرف متوجہ ہو گا اور تالیاں بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 87]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 684، ومسلم 421، من حديث مالك به، وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: وحانت الصلاة وفي رواية يحييٰ: فقال]

تفقه:
➊ جب نماز کا وقت فوت ہونے کا ڈر ہو تو پھر امام کا انتظار کرنے کے بجائے عارضی امام مقرر کرکے فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
➋ اگر شرعی عذر ہو تو صفوں میں سے گزر کر اگلی صف میں جا کر کھڑا ہو جانا جائز ہے۔ اگر کوئی شرعی عذر یا اجتہادی خطا ہو تو نماز میں عمل کثیر سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیاں بجانے والے مردوں کو نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا تھا۔
➍ نماز میں اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہئے اور اسی طرح آسمان کی طرف دیکھنا بھی منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے سامنے یا جائے نماز پر نظر رکھی جائے۔ واللہ اعلم
➎ اہلِ ایمان کا آپس میں بعض اجتہادی امور پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اختلاف کے بجائے اتفاق کی راہ نکالی جائے۔
➏ بعض اوقات نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے لیکن نماز میں منہ ہر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔ نماز کے بعد مطلق دعا میں منہ پر ہاتھ پھیرنا سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔ دیکھئے [الادب المفرد للبخاري 609 وسنده حسن لذاته وأخطأ من ضعفه]
➐ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو آدمی معذور ہے لیکن واضح ثابت شدہ مسئلے یا ضرورتِ دین میں غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو پھر معذور نہیں ہے۔
➑ افضل کے مقابلے میں مفضول کو امامت نہیں کرانی چاہئے۔
➒ اگر دو امام ہوں، ایک پہلے سے کھڑا ہو کر نماز پڑھا رہا ہو پھر دوسرا امام آئے اور بیٹھ کر نماز پڑھانا شروع کردے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھتے رہیں گے۔ اگر امام ایک ہو اور پہلے سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب لوگ بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں گے۔ دیکھئے الموطأ حدیث: 1
➓ اس روایت سے بطریق اولیٰ اور بطریق قیاس ثابت ہے کہ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ دوسرا قائم مقام امام بن سکتا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 104/21]
◄ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً اگر امام بھول جائے تو اسے لقمہ (فتحہ) دینا جائز ہے
◄ نیز امام کے بھولنے کی صورت میں مرد حضرات تسبیح اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ مارنے کے ذریعے سے آگاہ کریں گی
◄ افضل کی اجازت سے اُس کی موجودگی میں مفضول امامت کرا سکتا ہے اور
◄ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ وغیرہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 408   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 941  
´نماز میں عورتوں کے تالی بجانے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ ظہر کے بعد مصالحت کرانے کی غرض سے ان کے پاس آئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہہ آئے کہ اگر عصر کا وقت آ جائے اور میں واپس نہ آ سکوں تو تم ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ جب عصر کا وقت ہوا تو بلال نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا تو آپ آگے بڑھ گئے، اس کے اخیر میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مرد سبحان الله کہیں اور عورتیں دستک دیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 941]
941۔ اردو حاشیہ:
➊ مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہو جائے، تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے اور بالخصوص آئمہ قوم اور ذی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔
➋ امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔
➌ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل اعتماد نائب تھے اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انہیں منصب خلافت کے لئے منتخب کیا۔
➍ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی۔ امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بےچینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجائیں۔
➎ لاعلمی سے جو عمل ہو جائے وہ معاف ہے، جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجائیں۔ مگر علماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
➏ اثنائے قرات میں حمد اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 941   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 785  
´امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 785]
785 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب اور ارباب اختیار صرف اس انتظار میں نہ رہیں کہ لوگ لڑنے کے بعد آئیں گے تو فیصلہ کروں گا بلکہ جھگڑے کی اطلاع ملنے پر فوراًً کاروائی کریں اور صلح کی کوشش کریں۔
➋ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر مجھے دیر ہو جائے تو ابوبکر سے کہنا کہ جماعت کرا دیں۔
➌ دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے مثلاً: وہ اہل علم و فضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی۔ یاد رہے کہ امام کے سامنے موجود سترہ مقتدیوں کے لیے کفایت کرتا ہے جس سے نمازیوں کے درمیان سے گزرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2 تحت حديث: 684]
➍ تالی بجانے کا حکم تو عورتوں کے لیے ہے۔ یہ معنیٰ جمہور اہل علم کے قول کے مطابق ہیں یعنی اگر عورت کے لیے امام کو متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی انگلیاں مارے کیونکہ ہتھیلی پر مارنا لہو و لعب کے لیے ہوتا ہے جو نماز کے لائق نہیں۔ نماز میں مذکورہ طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ تالی بجانے کا مطلب یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس جملے کے معنیٰ یوں کیے ہیں۔ تالی بجانا عورتوں کا کام ہے۔ یعنی یہ تو عورتوں کی فضول عادت ہے۔ گویا آپ تالی کی حرمت فرما رہے ہیں۔ نماز میں یہ مردوں کے لیے جائز ہے نہ عورتوں کے لیے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورتیں بھی ضرورت کے موقع پر سبحان اللہ ہی کہیں گی لیکن یہ مفہوم صحیح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔ دیکھیے: [صحیح البخاري العمل في الصلاة حدیث: 1253 و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: 422]
اس کی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز جاری رکھنے کا اشارہ کرنا بطور تکریم و تشریف تھا نہ کہ بطور حکم ورنہ ان کے لیے پیچھے ہٹنا جائز نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اٹھا کر اپنی بے حیثیتی کا اظہار کرنا اور حمد و ثنا کرنا اور پیچھے ہٹ آنا اس توجیہ کی تائید کرتا ہے۔ نماز کے بعد آپ کا استفسار کرنا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب دینا لوگوں کو اسی توجیہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھا۔ کسر نفسی کا عظیم اظہار ہے کہ اپنے آپ کو معروف نام سے ذکر کرنے کی بجائے ابوقحافہ کا بیٹا کہا: جو غیر معروف تھا۔ رضي اللہ عنه و أرضاه۔
➏ مستقل امام کی جگہ مقتدیوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو جب امام آ جائے تو اس کا پیچھے ہٹنا اور مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا جائز ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ مالکی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ لیکن اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور واقعات کو جمع کیا جائے تو راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا اور پہلے امام کا پیچھے ہٹنا اس صورت میں جائز ہے جب مستقل امام نماز کے ابتدا میں آئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے لیکن اگر نماز کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں مستقل امام کو عارضی امام کی اقتدا ہی میں نماز ادا کر لینی چاہیے جیسا کہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز فجر ادا کی تھی کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک رکعت ادا کرچکے تھے۔ اگر اسے مطلقاً جائز سمجھ لیا جائے یعنی امام نماز کا کچھ حصہ ادا کرچکا ہو پھر بھی آگے پیچھے ہونا جائز ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ بعد میں پیچیدگیوں کا باعث بنے گا مثلاً: سلام وغیرہ کے مسئلہ میں لہٰذا راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابتدا میں جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 220/2]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 785   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.