الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب الإمامة کتاب: امامت کے احکام و مسائل 7. بَابُ: إِذَا تَقَدَّمَ الرَّجُلُ مِنَ الرَّعِيَّةِ ثُمَّ جَاءَ الْوَالِي هَلْ يَتَأَخَّرُ باب: امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟“، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 48 (684)، العمل في الصلاة 3 (1201)، 5 (1204)، 16 (1218)، السھو 9 (1234)، الصلح 1 (2690)، الأحکام 36 (7190)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، وقد أخرجہ: مسند احمد 5/336، 338، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404، 1405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ۷۹۴ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ۲؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آ جائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|