الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab Estaftah Assalah)
133. باب قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
133. باب: ظہر اور عصر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
Chapter: The Amount Of Recitation In Zuhr and ’Asr.
حدیث نمبر: 808
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الوارث، عن موسى بن سالم، حدثنا عبد الله بن عبيد الله، قال: دخلت على ابن عباس في شباب من بني هاشم، فقلنا لشاب منا: سل ابن عباس" اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر والعصر؟ فقال: لا، لا. فقيل له: فلعله كان يقرا في نفسه، فقال: خمشا هذه شر من الاولى كان عبدا مامورا، بلغ ما ارسل به، وما اختصنا دون الناس بشيء إلا بثلاث خصال:" امرنا ان نسبغ الوضوء، وان لا ناكل الصدقة، وان لا ننزي الحمار على الفرس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فِي شَبَابٍ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَقُلْنَا لِشَابٍّ مِنَّا: سَلْ ابْنَ عَبَّاسٍ" أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ؟ فَقَالَ: لَا، لَا. فَقِيلَ لَهُ: فَلَعَلَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: خَمْشًا هَذِهِ شَرٌّ مِنَ الْأُولَى كَانَ عَبْدًا مَأْمُورًا، بَلَّغَ مَا أُرْسِلَ بِهِ، وَمَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَيْءٍ إِلَّا بِثَلَاثِ خِصَالٍ:" أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ، وَأَنْ لَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ، وَأَنْ لَا نُنْزِيَ الْحِمَارَ عَلَى الْفَرَسِ".
عبداللہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں بنی ہاشم کے کچھ نوجوانوں کے ہمراہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے اپنے میں سے ایک نوجوان سے کہا: تم ابن عباس سے پوچھو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے؟ ابن عباس نے کہا: نہیں، نہیں، تو ان سے کہا گیا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی میں قرآت کرتے رہے ہوں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تمہارے چہرے یا چمڑے میں خراش کرے! یہ پہلی سے بھی بری ہے ۱؎، آپ ایک مامور (حکم کے پابند) بندے تھے، آپ کو جو حکم ملتا وہی لوگوں کو پہنچاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (بنی ہاشم) کو کوئی مخصوص حکم نہیں دیا سوائے تین باتوں کے: ایک یہ کہ ہم کامل وضو کریں دوسرے یہ کہ صدقہ نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ گدھے کو گھوڑی پر نہ چڑھائیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجہاد 23 (1701)، سنن النسائی/الطھارة 106 (141)، والخیل 9 (3611)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 49 (426)، (تحفة الأشراف: 5791)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 235، 249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا وہم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کا پڑھنا ثابت ہے، اوپر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور خباب رضی اللہ عنہ کی روایتیں گزر چکی ہیں جو صریح طور سے اس پر دلالت کرتی ہیں۔

Narrated Abdullah ibn Abbas: Abdullah ibn Ubaydullah said: I went to Ibn Abbas accompanying some youths of Banu Hashim. We said to one of them: Ask Ibn Abbas: Did the Messenger of Allah ﷺ recite (the Quran) in the noon and afternoon prayers? He replied: No. People said to him: Perhaps he might recite the Quran quietly. He said: May your face be scratched (a kind of curse)! This (statement) is worse than the former. He was only a servant (of Allah) receiving Commands from Him. He preached (the divine) message which he brought with him. He did not command anything to us (Banu Hashim) specially excluding other people except three points: he commanded us to perform ablution perfectly, and not to accept charity (sadaqah) and not to make pairing of donkey with horse.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 807


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (141 وسنده حسن) وقول ابن عباس ھذا منسوخ لأنه ثبت أنه قال: ’’إقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب‘‘ رواه ابن المنذر في الأوسط (3/109 وسنده صحيح)، قلت: وإذا المأموم مأمور بالقرأة فكيف الإمام؟

   سنن النسائى الصغرى141عبد الله بن عباسنسبغ الوضوء ولا نأكل الصدقة ولا ننزي الحمر على الخيل
   سنن النسائى الصغرى3611عبد الله بن عباسنسبغ الوضوء وأن لا نأكل الصدقة ولا ننزي الحمر على الخيل
   جامع الترمذي1701عبد الله بن عباسنسبغ الوضوء وأن لا نأكل الصدقة وأن لا ننزي حمارا على فرس
   سنن أبي داود808عبد الله بن عباسنسبغ الوضوء وأن لا نأكل الصدقة وأن لا ننزي الحمار على الفرس
   سنن ابن ماجه426عبد الله بن عباسأمرنا رسول الله بإسباغ الوضوء
   سنن أبي داود809عبد الله بن عباسلا ادري اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر والعصر ام لا
   مسند اسحاق بن راهويه19عبد الله بن عباسلا ادري اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر والعصر ام لا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 809  
´ظہر اور عصر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے یا نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 809]
809۔ اردو حاشیہ:
ظہر اور عصر میں قرأت کے مسئلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایات مختلف ہیں، کسی میں انکار ہے اور کسی میں تردد اور جبکہ کچھ میں اثبات بھی مروی ہے، شاید انہیں پہلے علم نہ تھا، پھر بعد میں دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے علم ہوا، بہرحال صحیح روایت میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرأت فرمایا کرتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري، حديث 746]
➋ اہل بیت کو کسی خاص حکم اور وصیت سے مخصوص نہیں کیا گیا۔ مذکورہ مسائل محض تاکید مذید کے معنی میں ہیں۔ صرف صدقہ کے نہ کھانے میں انہیں انفرادیت ہے۔
➌ گدھے اور گھوڑی کی جفتی ہمیں خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل از خود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمیں ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 809   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 19  
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں`
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ظہر اور عصر میں قرأت کے متعلق تردد تھا لیکن ظہر اور عصر میں قرأت کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے،
جیسا کہ حضرت ابومعمر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کرنے کو آپ لوگ کس طرح معلوم کر لیتے تھے؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔ [بخاري، كتاب الاذان، رقم: 761]
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 141  
´کامل وضو کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا: قسم ہے اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت ہمیں (یعنی بنی ہاشم کو) کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا سوائے تین چیزوں کے ۱؎ (پہلی یہ کہ) آپ نے حکم دیا کہ ہم کامل وضو کریں، (دوسری یہ کہ) ہم صدقہ نہ کھائیں، اور (تیسری یہ کہ) ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر نہ چڑھائیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 141]
141۔ اردو حاشیہ:
➊ صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انہیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔
گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔ کیونکہ گھوڑا نسل کے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل آیت: 8 میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ﴿إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون﴾ [مسند احمد: 98/1، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: 3601]
یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنابریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کوئی جاہل لوگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [معالم السنن للخطابي: 21/2، و شرح معاني الآثار للطحاوي: 273/3، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائي: 245-238/3]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث426  
´اچھی طرح وضو کرنے کا بیان۔`
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کامل وضو کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 426]
اردو حاشہ:
اسباغ کی وضاحت کے لیےحدیث 407 کا فائدہ نمبر 1 ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 426   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1701  
´گھوڑی پر گدھے چھوڑنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مامور بندے تھے، آپ نے ہم کو دوسروں کی بنسبت تین چیزوں کا خصوصی حکم دیا: ہم کو حکم دیا ۱؎ کہ پوری طرح وضو کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی پر گدھا نہ چھوڑیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1701]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یہ حکم ایجابی تھا،
ورنہ اتمام وضوء سب کے لیے مستحب ہے،
اور گدھے کو گھوڑی پر چھوڑنا سب کے لیے مکروہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1701   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.