الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
3.02. حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ
حدیث نمبر: 81
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «احتج آدم وموسى عليهما السلام عند ربهما فحج آدم موسى قال موسى انت آدم الذي خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه واسجد لك ملائكته واسكنك في جنته ثم اهبطت الناس بخطيئتك إلى الارض فقال آدم انت موسى الذي اصطفاك الله برسالته وبكلامه واعطاك الالواح فيها تبيان كل شيء وقربك نجيا فبكم وجدت الله كتب التوراة قبل ان اخلق قال موسى باربعين عاما قال آدم فهل وجدت فيها (وعصى آدم ربه فغوى) ‏‏‏‏قال نعم قال افتلومني على ان عملت عملا كتبه الله علي ان اعمله قبل ان يخلقني باربعين سنة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فحج آدم موسى» . رواه مسلم ‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام عِنْدَ رَبِّهِمَا فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى قَالَ مُوسَى أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَأَسْكَنَكَ فِي جَنَّتِهِ ثُمَّ أَهَبَطْتَ النَّاسَ بِخَطِيئَتِكَ إِلَى الأَرْض فَقَالَ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ وَأَعْطَاكَ الْأَلْوَاحَ فِيهَا تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ وَقَرَّبَكَ نَجِيًّا فَبِكَمْ وَجَدَتِ اللَّهِ كَتَبَ التَّوْرَاةَ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ قَالَ مُوسَى بِأَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ آدَمُ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيهَا (وَعَصَى آدَمُ ربه فغوى) ‏‏‏‏قَالَ نَعَمْ قَالَ أَفَتَلُومُنِي عَلَى أَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيَّ أَنْ أَعْمَلَهُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ 
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ ؑ نے اپنے رب کے ہاں مناظرہ و مباحشہ کیا، تو آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب رہے، موسیٰ ؑ نے فرمایا: آپ آدم ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا، اس میں اپنی روح پھونکی، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا، آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی خطا سے لوگوں کو زمین پر اتارا، آدم ؑ نے فرمایا: آپ موسیٰ ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کے لیے منتخب فرمایا، آپ کو تختیاں عطا کیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ کو کسی واسطے کے بغیر سرگوشی کا شرف بخشا، آپ کے خیال میں میری تخلیق سے کتنا عرصہ قبل اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی ہو گی؟ موسیٰ ؑ نے فرمایا: چالیس برس، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ نے اس میں یہ چیز بھی پائی: آدم ؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گئے۔؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ مجھے ایسے عمل کرنے پر ملامت کرتے ہیں جس کا کرنا اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس برس پہلے مجھ پر لازم کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آ گئے۔
 اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (15 / 2652) [و البخاري (6614 وغيره) مختصرًا.]»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   مشكوة المصابيح81عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى عليهما السلام عند ربهما فحج آدم موسى قال موسى انت آدم الذي خلقك الله
   صحيح مسلم6744عبد الرحمن بن صخراحتج آدم، وموسى عليهما السلام عند ربهما، فحج آدم موسى، قال موسى: انت آدم الذي خلقك الله بيده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 81  
´حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام عِنْدَ رَبِّهِمَا فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى قَالَ مُوسَى أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَأَسْكَنَكَ فِي جَنَّتِهِ ثُمَّ أَهَبَطْتَ النَّاسَ بِخَطِيئَتِكَ إِلَى الأَرْض فَقَالَ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ وَأَعْطَاكَ الْأَلْوَاحَ فِيهَا تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ وَقَرَّبَكَ نَجِيًّا فَبِكَمْ وَجَدَتِ اللَّهِ كَتَبَ التَّوْرَاةَ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ قَالَ مُوسَى بِأَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ آدَمُ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيهَا (وَعَصَى آدَمُ ربه فغوى) ‏‏‏‏قَالَ نَعَمْ قَالَ أَفَتَلُومُنِي عَلَى أَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيَّ أَنْ أَعْمَلَهُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور موسٰی علیہ السلام دونوں (عالم ارواح میں) اپنے پروردگار کے سامنے جھگڑے تو آدم علیہ السلام موسٰی علیہ السلام پر غالب آ گئے (جھگڑنے کی نوعیت یوں شروع ہوئی موسٰی علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ وہی آدم ہیں، آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح آپ کے اندر پھونکی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا، پھر آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے لوگوں کو زمین پر اتار دیا اگر آپ گناہ نہ کرتے تو لوگ زمین پر آباد نہ ہوتے۔ اس پر آدم علیہ السلام نے فرمایا: آپ ہی وہ موسٰی علیہ السلام ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے آپ کو منتخب فرما لیا اور اپنے کلام سے مشرف فرمایا۔ اور آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا پھر آپ کو اپنی سرگوشی کی عزت بخشی تھی، پس آپ نے توراۃ کو میرے پیدا ہونے سے کتنی مدت پہلے لکھا ہوا پایا تھا۔ موسٰی علیہ السلام نے کہا: چالیس سال، آدم علیہ السلام نے کہا: کیا آپ نے تورات میں یہ پایا تھا کہ «وَعَصٰي اَدَمُ رَبَّهُ فَغَويٰ» (یعنی آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راستہ سے بہک گیا۔) موسٰی علیہ السلام نے کہا: ہاں (یہ لکھا ہوا موجود ہے) آدم علیہ السلام نے فرمایا: آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جس کے کرنے پر میں مجبور تھا اور اللہ نے میرے پیدا ہونے سے چالیس سال پہلے ہی اس کو میری تقدیر میں لکھ دیا (کہ آدم ایسا ضرور کرے گا اس پر ملامت کرنا درست نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام (اس طرح سے) موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 81]

تخریج:
[صحيح مسلم 6744]

فقہ الحدیث:
➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔
ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 195ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ دیکھئے: [كتاب المعرفة والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 وسنده صحيح، تاريخ بغداد 223/5 وسنده صحيح]
↰ معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا دیکھئے: [سورۃ صٓ: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔
↰ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب الفقه الاكبر میں لکھا ہوا ہے کہ:
«فما ذكره الله تعالىٰ فى القران من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال ان يده قدرته او نعمته لان فيه ابطال الصفة وهو قول اهل القدر والااعتزال ولكن يده صفته بلاكيف»
اور اس کے لئے ہاتھ، منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ «يد» سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔ [الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص 36، 37 البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص 32]
مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔
تنبیہ: یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی و غیر حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے: [مقدمة البيان الازهر از قلم محمد سرفراز خان صفدر ديوبندي ص16 تا 23]
◈ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:
غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے «لا ريب فيه» [مقدمة البيان الازهر ص23]
اس دیوبندی «لا ريب فيه» کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔
اس کے بارے میں:
◈ امام اہل سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لاينبغي ان يروي عنه۔۔ شئي»
اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہیے۔ [كتاب العلل 285/2 ت 1864]
◈ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وأبومطيع الخراساني ليس بشيء»
اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760]
↰ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«فهٰذا وفعه أبو مطيع عليٰ حماد»
پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال 42/3]
↰ معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا الفقہ الأکبر نامی رسالے کے بارے میں «لاريب فيه» کہنا انتہائی عجیب و غریبب ہے۔
➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔
➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی ان کا قول باطل و مردود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہل سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدا حق ہے۔
➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان و نادم ہوتے ہں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر ڈٹے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم و پشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئیے: [شفاء العليل لا بن القيم ص35، 36] و شرح حدیث جبریل [عربي ص 65-67، اردو ص 104تا 107]
جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین و کفار کا ہے۔ دیکھئے: [سورة الانعام آيت 148] اور [سورة النحل آيت: 35]
➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 3409، 4736، 7515]
➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 81   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.