وعن سهل بن سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل عمل اهل النار وإنه من اهل الجنة ويعمل عمل اهل الجنة وإنه من اهل النار وإنما العمال بالخواتيم» وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم»
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’ـ’ بندہ جہنمیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے، دوسرا آدمی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے، اعمال تو وہ (قابل اعتبار) ہیں جو آخری ہیں: “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6607 واللفظ له) و مسلم (179/ 112)»
إن المرء ليعمل بعمل أهل النار البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل الجنة ، فيعمل بها حتى يموت عليها وذلك ما كتب له ، وإن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل النار ، فيعمل بها حتى يموت وذلك ما كتب له
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83
´تقدیر کا غالب آنا` «. . . وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .» ”. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔“ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]
تخریج: [صحيح بخاري 6607]، [صحيح مسلم 306]
فقہ الحدیث: ➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔ ➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ ➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔ ➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔ ➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔ ➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔ ➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔ ➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔