الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
33. بَابُ الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ وَمَا يُخَافُ مِنْهَا:
33. باب: عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے اور خاتمہ سے ڈرتے رہنا۔
(33) Chapter. The (results of) deeds done depend upon the last actions. And that one should be afraid of it.
حدیث نمبر: 6493
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عياش الالهاني الحمصي، حدثنا ابو غسان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى رجل يقاتل المشركين، وكان من اعظم المسلمين غناء عنهم، فقال: من احب ان ينظر إلى رجل من اهل النار، فلينظر إلى هذا، فتبعه رجل فلم يزل على ذلك حتى جرح فاستعجل الموت، فقال: بذبابة سيفه فوضعه بين ثدييه فتحامل عليه حتى خرج من بين كتفيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن العبد ليعمل فيما يرى الناس عمل اهل الجنة، وإنه لمن اهل النار، ويعمل فيما يرى الناس عمل اهل النار وهو من اهل الجنة، وإنما الاعمال بخواتيمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْأَلْهَانِيُّ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمُسْلِمِينَ غَنَاءً عَنْهُمْ، فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَتَبِعَهُ رَجُلٌ فَلَمْ يَزَلْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى جُرِحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَقَالَ: بِذُبَابَةِ سَيْفِهِ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ فَتَحَامَلَ عَلَيْهِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِخَوَاتِيمِهَا".
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا، یہ شخص مسلمانوں کے صاحب مال و دولت لوگوں میں سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مر جائے۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی (اس طرح وہ خودکشی کر کے مر گیا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔

Narrated Sa`d bin Sahl As-Sa`idi: The Prophet looked at a man fighting against the pagans and he was one of the most competent persons fighting on behalf of the Muslims. The Prophet said, "Let him who wants to look at a man from the dwellers of the (Hell) Fire, look at this (man)." Another man followed him and kept on following him till he (the fighter) was injured and, seeking to die quickly, he placed the blade tip of his sword between his breasts and leaned over it till it passed through his shoulders (i.e., committed suicide)." The Prophet added, "A person may do deeds that seem to the people as the deeds of the people of Paradise while in fact, he is from the dwellers of the (Hell) Fire: and similarly a person may do deeds that seem to the people as the deeds of the people of the (Hell) Fire while in fact, he is from the dwellers of Paradise. Verily, the (results of) deeds done, depend upon the last actions."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 500


   صحيح البخاري6607سهل بن سعدالعبد ليعمل عمل أهل النار وإنه من أهل الجنة ويعمل عمل أهل الجنة وإنه من أهل النار إنما الأعمال بالخواتيم
   صحيح البخاري6493سهل بن سعدالعبد ليعمل فيما يرى الناس عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار ويعمل فيما يرى الناس عمل أهل النار وهو من أهل الجنة وإنما الأعمال بخواتيمها
   صحيح البخاري4207سهل بن سعدالرجل ليعمل بعمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وإنه لمن أهل النار ويعمل بعمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح البخاري4202سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح البخاري2898سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح مسلم306سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح مسلم6741سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   مشكوة المصابيح83سهل بن سعدإن العبد ليعمل عمل اهل النار وإنه من اهل الجنة ويعمل عمل اهل الجنة وإنه من اهل النار وإنما العمال بالخواتيم
   المعجم الصغير للطبراني31سهل بن سعد إن المرء ليعمل بعمل أهل النار البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل الجنة ، فيعمل بها حتى يموت عليها وذلك ما كتب له ، وإن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل النار ، فيعمل بها حتى يموت وذلك ما كتب له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]

تخریج:
[صحيح بخاري 6607]،
[صحيح مسلم 306]

فقہ الحدیث:
➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔
➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 83   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6493  
6493. حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6493]
حدیث حاشیہ:
یعنی آخر مرتے وقت جس نے جیسا کام کیا اسی کا اعتبار ہوگا اگر ساری عمر عبادت اور تقویٰ میں گزاری لیکن مرتے وقت گناہ میں گرفتار ہوا تو پچھلے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے اللہ سوء خاتمہ سے بچائے۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو گووہ فاسق فاجر ہو یا صالح اور پرہیز گار ہم قطعی طور پر دوزخی یا جنتی نہیں کہہ سکتے۔
معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا نام کن لوگوں میں لکھا ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسلمان کو اپنے اعمال صالحہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے اور سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے۔
بزرگوں نے تجر بہ کیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل بیت نبوی سے محبت رکھنے والوں کا خاتمہ اکثر بہتر ہوتا ہے۔
یا اللہ!مجھ نا چیز کو بھی ہمیشہ اہل حدیث اور آل رسول سے محبت رہی ہے اور جس کو سادات سے پایادل سے اس کا احترام کیا ہے مجھ ناچیز حقیر گنہگار کو بھی خاتمہ بالخیر نصیب کہ برقول ایمان کنم خاتمہ۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6493   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6493  
6493. حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6493]
حدیث حاشیہ:
(1)
بندے کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے برے خاتمے سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔
حسن خاتمہ کی چند ایک علامات حسب ذیل ہیں:
٭ وفات کے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3116)
٭ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا۔
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 982)
٭ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا۔
(مسند احمد: 196/2)
٭ میدان قتال و جہاد میں شہادت کی موت حاصل کرنا۔
(مسند أحمد: 131/4)
٭ طاعون کی بیماری سے موت آنا۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2830)
٭ ٹی بی کی بیماری میں وفات پانا۔
(مجمع الزوائد: 317/4)
٭ اپنے مال و عزت کا دفاع کرتے ہوئے مر جانا۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4772)
٭ سرحدی پہرے کی حالت میں موت آنا۔
(صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 4938 (1913)
٭ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا۔
(مسند أحمد: 391/5)
٭ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2200 (949)
٭ پیٹ کی بیماری سے، غرق ہو کر، ملبے کے نیچے دب کر، فالج کے سبب اور عورت کو حالت نفاس میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامتیں ہیں کیونکہ متعدد احادیث میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4940 (1914)
، مسند أحمد: 391/5)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے اچھے یا برے انجام کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر کسی کو پتا ہوتا کہ وہ نجات یافتہ ہے تو وہ خود پسندی کا شکار ہو کر سستی کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی کو معلوم ہوتا کہ وہ ہلاک ہونے والا ہے تو وہ مزید سرکشی میں آگے بڑھتا، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ انسان امید اور خوف کے درمیان رہے جو ایک ایمانی کیفیت ہے۔
(فتح الباري: 401/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6493   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.